2010/09/21

زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا

27 جولائی سن 1980 کی صبح ابن صفی اپنے گھر سے قریبی واقع آفس کی جانب روانہ ہوتے نظر نہیں آئے۔ 26 جولائی کی صبح ان کے اہل خانہ ان کے پرستاروں کی موجودگی مٹی کا حق مٹی کے سپرد کر آئے تھے۔ وہ 25 اور 26 جولائی کی درمیانی صبح اپنے خالق حقیقی سے جاملے تھے۔ وہ ناظم آباد میں واقع اپنے مکان کو چھوڑ گئے اور اپنے نئے مکان کا پتہ بھی کسی کو دے کر نہیں گئے۔

اب تو یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی
یاروں نے بہت دور بسائی ہیں بستیاں

26 جولائی کی صبح وہ ہاتھ تہہ خاک ہوئے جو 28 برس اپنے پڑھنے والوں کو نت نئے جہانوں کی سیر کراتے رہے۔ وہ ہاتھ جن کی جنبش میں ترنم تھا اور خاموشی میں شاعری۔ جن کی انگلیوں سے تخلیق کی گنگا بہا کرتی تھی۔ بقول سردار جعفری "" انسان کے تسلسل میں حیاتیاتی عمل کارفرما ہے جو باپ سے بیٹے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ لیکن انسانیت کا تسلسل ہاتھوں کی تخلیق کا رہین منت ہے۔ یہ تخلیق بظاہر بے جان ہوتی ہے لیکن جانداروں سے زیادہ جاندار ہوتی ہے۔ ہاتھوں کے بغیر نہ جنگ ممکن ہے نہ امن، محبت ممکن ہے نہ نفرت۔ یہی ہاتھ گلے میں حمائل ہوتے ہیں اور یہی ایک دوسرے کو چھوڑ کر دل کی دھڑکنیں تیز کردیتے ہیں۔ ساز میں سوئے ہوئے نغمے انہی ہاتھوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ ہم آغوشی کے لیے یہی سب سے پہلے آگے بڑھتے ہیں اور رخصت کے وقت یہی سب کے بعد پیچھے ہٹتے ہیں۔ جس طرح ذہن اپنے آپ کو خیال میں تبدیل کرکے اس کو اپنے وجود سے الگ کردیتا ہے اسی طرح ہاتھ اپنے آپ کو قلم اور تلوار، مشین اور اوزار میں تبدیل کرکے انہیں اپنے وجود سے الگ کردیتے ہیں اور وہ چیزیں ہاتھوں سے بھی زیادہ طاقتور بن جاتی ہیں۔""

لیکن سری ادب کے موجد ابن صفی کی موت کے ساتھ ان کا دور ختم نہیں ہوتا، شروع ہوتا ہے۔ بڑے ادیب کی زندگی اس کی آنکھیں بند ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔

چشم خود بربست و چشم ماکُشاد

کم و بیش 28 برس پیشتر ابن صفی کے فرزند احمد صفی نے کہا تھا کہ کبھی کھبی یہ غم حافظے کا سہارا لے کر لاشعور کی گہرائیوں سے نکلتا ہے اور آنکھوں کے راستے بہہ جاتا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا، اس لیے کہ اب سے چند روز قبل میں ابن صفی کی بڑی صاحبزادی کو اپنے چہیتے ابو کی یادیں تازہ کرتے دیکھ رہا تھا، ساتھ میں احمد صفی بیٹھے تھے، ان کی ہمشیرہ کی بات کتم ہوئی تو احمد صفی کی آنکھیں ایک بار پھر نم ہوچکی تھیں۔

احمد صفی اس جانکاہ سانحے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:

" 24 جولائی کو ابو کی طبیعت معمول سے زیادہ خراب ہوگئی تھی۔ معمول سے زیادہ اس لیے کہ اس بیماری کو تقریبا دس ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہوچکا تھا۔ ابو پر درد کا پہلہ اور شدید حملہ 17 ستمبر 1979 کی رات کو ہوا تھا اور اس کے بعد صحت مسلسل خراب ہی رہی۔ نومبر 1979 میں بیماری شدت اختیار کرگئی۔ ڈاکٹروں نے طویل معائنوں اور تکلیف دہ ٹیسٹوں کے بعد ایک خطرناک بیماری کا اندیشہ ظاہر کردیا۔ دسمبر 1979 میں ابو کو کراچی کے جناح اسپتال میں داخل کر دیا گیا۔ مزید معائنوں اور ٹیسٹوں نے لبلبہ میں کینسر کی تصدیق کردی۔ اس بات کو ابو سمیت تمام لوگوں سے پوشیدہ رکھا گیا۔ اسپتال میں بہترین علاج اور توجہ سے بظاہر ابو کی بیماری میں کمی ہوگئی۔ اسپتال سے گھر آنے کے بعد علاج جاری رہا لیکن بیماری کی وجہ سے ان کے جسم میں متواتر خون کی کمی واقع ہونے لگی۔ جمعرات 24 جولائی 1980 کو ابو کو بخار آگیا جو اس وقت غیر معمولی بات نہیں تھی لیکن رات ہوتے ہوتے بخار بہت تیز ہوگیا۔ دوسرے دن طبیعت میں خرابی کی وجہ سے میں (احمد صفی) دیر سے سو کر اٹھا۔ امی نے بتایا کہ رات بھر ابو کی طبیعت بہت خراب رہی۔ ابو کو اس وقت بھی خاصا بخار تھا۔ جمعہ کا دن تھا، چھٹی ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر کا ملنا بھی مشکل تھا۔ امی کے مشورے سے میں اور بھیا (ابرار صفی) رحمن بھائی کو لینے چلے گئے۔ ڈاکٹر رحمن آئے تو ابو کا بخار تیز ہوچکا تھا۔ ان کی سانس اس قدر تیز تیز چل رہی تھی کہ بولنا دشوار تھا۔ ڈاکٹر رحمن نے فورا انجکشن منگوائے، جب انہوں نے انجکشن لگانے کے لیے ابو کی آستین سرکائی تو ابو نے منع کیا " میرے بازو اب مزید مت چھیدو" ۔۔ رحمن بھائی نے پاؤں کی رگ میں انجکشن لگایا۔ انجکشن لگنے اور دوا ملنے کے بعد ابو کی طبیعت بہتر ہوگئی اور انہوں نے عادتا طبیعت سنبھلتے ہی باتیں شروع کردیں۔ شام کے وقت افطار کے بعد عیادت کے لیے حسب معمول لوگوں نے آنا شروع کردیا۔ ابو کو کافی تیز بخار تھا، اس کے باوجود آنے جانے والوں سے تھوڑی بہت بات چیت کررہے تھے۔ رحمن بھائی نے جاتے وقت بھیا سے کہا کہ اس وقت تو حالت قدرے بہتر ہے، انشااللہ صبح سب سے پہلے خون چڑھانے کا انتظام کریں گے۔ یہ ایک ایسی صبح کا ذکر تھا جو کبھی نہ آئی۔ اس رات مجھے (احمد) بھی کافی تیز بخار تھا، میں ابو کے پاس سے اٹھتے ہی بڑے کمرے میں چلا گیا اور جاتے ہی سو گیا۔ رات کو ڈیڑھ بجے کا عمل تھا۔ گھڑیاں دیر ہوئے 26 تاریخ کا اعلان کرچکی تھیں۔ ابو نے سارے دن کے بعد بیت الخلا جانے کو کہا۔ سارا دن اس قدر کمزوری رہی تھی کہ ہاتھ نہ اٹھتا تھا لیکن اس وقت خود اٹھے اور سہارا لے کر کمرے سے متصل باتھ روم گئے۔ وہاں سے واپس آئے تو سانس نہایت تیزی سے چلا رہا تھا۔ بھیا کو بلایا کہ پیٹھ سہلا دیں۔ امی نے فورا بھیا کو جگایا۔ جب بھیا پیٹھ سہلا رہے تھے تو ابو نے کہا " ناحق تم لوگوں کو آدھی رات تنگ کررہا ہوں، میری وجہ سے تم لوگوں کو بہت پریشانی ہوتی ہے"۔۔۔۔ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔۔۔ تھوڑی دیر میں اچانک تکلیف میں اضافہ ہوگیا۔ کراہنے کی آواز سن کر میں فورا کمرے میں پہنچا، اس وقت تک ابو لیٹ چکے تھے۔ ان کی آنکھیں چھت میں گڑی ہوئی تھیں اور سانس چلنے کی وجہ سے پورا پلنگ ہل رہا تھا۔ ہم سب پریشان ہوگئے، امی اور بہنیں گھبرا کر رونے اور دعائیں مانگنے لگیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ میں اور بھیا ابو کے ہاتھ پاؤں سہلانے لگے، ابو کی حالت دیکھ کر سب کی حالت غیر ہو رہی تھی، بھیا روتے جاتے تھے اور ابو کو جھنجھوڑتے جاتے تھے۔ افتخار (بھائی) فورا گاڑی لے کر ڈاکٹر کی طرف دوڑ گیا۔ بھیا اور مجھ میں ابو کے پاس سے ہٹنے کی ہمت نہ تھی۔ امی اور بہنیں پاگلوں کی طرح ادھر سے ادھر دوڑ رہی تھیں۔ اچانک ابو نے زور سے سانس لی اور ان کے چہرے کا کرب یکسر دور ہوگیا۔۔۔۔ وہ بالکل پرسکون ہوگئے۔"

ابن صفی پر آفیشل ویب سائٹ ابن صفی ڈاٹ انفو کے نگراں کار اور ہمارے کرم فرما جناب محمد حنیف نے مجھے احمد صفی کا مندرجہ بالا مضمون ارسال کرتے وقت تبصرہ کیا کہ "جب بھی میں اسے پڑھتا ہوں، میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔"

ابن صفی کی موت پر ان کی کہانیوں کی مستقل فضائیں بھی مغموم و سوگوار لگتی ہیں۔ عمران کے قہقہ بار فیلٹ ہر اداسی چھائی ہوئی ہے۔ صفدر، جولیا، خاور، نعمانی، چوہان، ظفرالمک، جمن، سلیمان، جوزف، اور یہاں تک کہ عمران جس نے کبھی مایوس ہونا نہ سیکھا تھا۔ سب کے سب غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی اداس تصویریں بنے بیٹھے ہیں۔ ادھر کرنل فریدی کی کوٹھی پر بھی سوگوار فضا طاری ہے۔ کیپٹن حمید واقعی مغموم ہوگیا ہے اور اپنے خالی پائپ کو گھور رہا ہے۔ اور کرنل فریدی۔۔۔ وہ فریدی جس نے کبھی حمید کے اس اظہار خیال پر کہ اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں، کہا تھا کہ "لغو خیال ہے، میں کبھی بوڑھا نہیں ہو سکتا"۔ جس کی ڈکشنری میں مایوسی اور ناکامی جیسے الفاظ نہیں ملتے، وہ فریدی بھی آج افسردگی کے عالم میں بجھے ہوئے سگار کو یوں تک رہا ہے جیسے سگار کی آگ نہ ہو بلکہ ایک تابناک اور بھٹرکتا ہوا شعلہ ہو یکایک سرد ہوگیا ہے۔ غم انگیز پرچھائیوں نے فریدی کے چہرے کو جھریا دیا ہے۔ پہلی بار اس کے چہرے ہر مایوسی کے آثار نظر آئے ہیں اور اس اندوہناک خیال سے اور زیادہ وحشت ہوتی ہے کہ اب کون آئے گا جو ان کے کرداروں میں روح پھونک سکے گا، ان میں جان ڈال کر فریدی کو واقعی فریدی اور عمران کو واقعی عمران بنا کر پیش کرسکے گا۔ حقیقت تو یہ ہے ان دونوں کرداروں کی ہمہ گیریت اور ان کی کردار سازی کے فن سے جتنا ابن صفی واقف تھے کسی دوسرے کا اس کی گرد تک کو پہنچنا بعید از قیاس ہے۔

مدتوں ذہن میں گونجوں گا سوالوں کی طرح
تجھ کو یار آؤں گا گزرے ہوئے سالوں کی طرح
ڈوب جائے جو کسی روز خورشید انا
مجھ کو دوہراؤ گے محفلوں میں مثالوں کی طرح

اپنے چہیتے ‘ابو‘ کے گزر جانے کے بعد محض وہ ساتوں بہن بھائی ہی یتیم نہ ہوئے بلکہ ادرو زبان کا سری ادب بھی یتیم ہوگیا۔

ابن صفی 26 جولائی 1928 کو الہ آباد کے ایک گاؤں نارا میں صفی اللہ اور نُذیرا بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ زبان کے شاعر نوح ناروی رشتے میں ابن صفی کے ماموں لگتے تھے۔ ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم نارا کے پرائمری اسکول میں حاصل کی۔ میٹرک ڈی اے وی اسکول الہ آباد سے کیا جبکہ انٹرمیڈیٹ کی تعلیم الہ آباد کے ایونگ کرسچن کالج سے مکمل کی۔ 1947 میں الہ آباد یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا۔ اسی اثنا میں برصغیر میں تقسیم کے ہنگامے شروع ہوگئے۔ ہنگامے فرو ہوئے تو تعلیم کا ایک سال ضائع ہوچکا تھا لہذا بی اے کی ڈگری آگرہ یونیورسٹی سے یہ شرط پوری کرنے پر ملی کہ امیدوار کا عرصہ دو برس کا تدریسی تجربہ ہو۔ سن 1948 میں عباس حسینی نے ماہنامہ نکہت کا آغاز کیا۔ شعبہ نثر کے نگران ابن سعید (پروفیسر مجاور حسین رضوی جو حیات ہیں اور الہ آباد میں مقیم ہیں ۔ راقم کی ان سے فروری 2010 میں گفتگو ہوئی تھی) تھے جبکہ ابن صفی شعبہ شاعری کے نگران مقرر ہوئے۔ رفتہ رفتہ وہ مختلف قلمی ناموں سے طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھنے لگے۔ ان قلمی ناموں میں طغرل فرغان اور سنکی سولجر جیسے اچھوتے نام شامل تھے۔ سن 1948 میں نکہت سے ان کی پہلی کہانی فرار شائع ہوئی۔ 1951 کے اواخر میں بے تکلف دوستوں کی محفل میں کسی نے کہا تھا کہ اردو میں صرف فحش نگاری ہی مقبولیت حاصل کرسکتی ہے۔ ابن صفی نے اس بات سے اختلاف کیا اور کہا کہ کسی بھی لکھنے والے نے فحش نگاری کے اس سیلاب کو اپنی تحریر کے ذریعے روکنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے۔ اس پر دوستوں کا موقف تھا کہ جب تک بازار میں اس کا متبادل دستیاب نہیں ہوگا، لوگ یہی کچھ پڑھتے رہیں گے۔ یہی وہ تاریخ ساز لمحہ تھا جب ابن صفی نے ایسا ادب تخلیق کرنے کی ٹھانی جو بہت جلد لاکھوں پڑھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ عباس حسینی کے مشورے سے اس کا نام جاسوسی دنیا قرار پایا اور ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول ‘دلیر مجرم‘ مارچ 1952 میں شائع ہوا۔ 1949 سے 1952 کے عرصے میں ابن صفی پہلے اسلامیہ اسکول اور بعد میں یادگار حسینی اسکول میں ٹیچر کی حیثیت سے خدمات سرانجام سیتے رہے تھے۔ اگست 1952 میں ابن صفی اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ پاکستان آگئے جہاں انہوں نے کراچی کے علاقے لالو کھیت کے سی ون میں 1953 سے 1958 تک رہائش اختیار کی۔ ان کے والد 1947 میں کراچی آچکے تھے۔ واقم نے 1956 میں شائع ہوئے عمران سیریز کے ناول بھیانک آدمی پر درج پتے کی مدد سے مذکورہ مکان ڈھونڈ نکالا جس کی تصاویر وادی اردو ڈاٹ کام پر دیکھی جاسکتی ہیں۔ اگست 1955 میں ابن صفی نے خوفناک عمارت کے عنوان سے عمران سیریز کا پہلا ناول لکھا اور عمران کے کردار کو راتوں رات مقبولیت حاصل ہوئی۔ بھیانک آدمی، اسرار پبلیکیشنز، 130 حسن علی آفندی روڈ، کراچی سے شائع ہوا تھا۔ مذکورہ ناول کو ماہانہ جاسوسی دنیا نے نومبر 1955 میں کراچی کے ساتھ ساتھ الہ آباد سے بیک وقت شائع کیا تھا۔ اکتوبر 1957 میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ٹھنڈی آگ شائع ہوا۔ 1958 میں ابن صفی، لالو کھیت سے کراچی کے علاقے ناظم آباد منتقل ہوگئے۔ جنوری 1959 میں ابن صفی اسرار پبلیکیشنز کو فردوس کالونی، کراچی-18 کے پتے پر منتقل کرچکے تھے اور یوں انہیں اپنی تخلیقات کو پروان چڑھانے کے لیے ایک آرام دہ ماحول میسر آگیا۔ ناظم آباد کے اس گھر میں وہ 1980 میں اپنے انتقال تک مقیم رہے۔ راقم کی ویب سائٹ وادی اردو پر اس مکان کی تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں۔ خاص کر اس کمرے کی تصویر بھی موجود ہے جس میں وہ اپنی لازوال کہانیاں تخلیق کیا کرتے تھے، اس کے علاوہ بوگن ویلیا کے اس پودے کی تصویر بھی شامل ہے جسے انہوں نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا۔

یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ ترقی کے اس موجودہ دور میں جہاں کمپیوٹر اور بالخصوص انٹرنیٹ کا استعمال گھر گھر ہونے لگا ہے اور انٹرنیٹ تیز تر معلومات کے حصول کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے، ابن صفی کے متعلق بھی خاصی معلومات دستیاب ہیں۔ اس ضمن میں ابن صفی ڈاٹ انفو کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ علاوہ ازیں، راقم کی ویب سائٹ وادی اردو ڈاٹ کام، (جس کا اجرا جولائی 2009 میں کیا گیا) پر بھی ابن صفی کے حوالے سے کئی اہم معلومات، تصاویر اور ویڈیوز دستیاب ہیں۔ وادی اردو پر ابن صفی کی کہانیوں کے حقیقی و لازوال کردار استاد محبوب نرالے عالم کے بارے میں ایک طویل تحقیقی مضمون بمعہ استاد کی نایاب تصاویر، شامل ہے۔ اس کے علاوہ ابن صفی پر اگست 2009 میں کراچی آرٹس کونسل میں ہونے والی پہلی سرکاری تقریب ‘ابن صفی-ایک مکالمہ‘ کی روداد و تصاویر، آج ٹی وی پر 2009 جولائی میں ابن صفی کی برسی پر نشر ہونے والی خبر کی مکمل تصاویر، ابن صفی پر پی ایچ ڈی کی گائڈ لائنز، سن 1972 کے الف لیلہ ڈائجسٹ کے ابن صفی نمبر کا مکمل ریکارڈ، اور اس نوعیت کی بے شمار دلچسپیاں شامل ہیں جنہیں متعلقین کی مکمل اجازت کے بعد شامل کیا گیا ہے۔ یہ تمام معلومات، ابن صفی ڈاٹ انفو پر بھی جناب محمد حنیف کے خصوصی تعاون سے بیک وقت شامل کی جاتی ہیں۔ فرزند ابن صفی، جناب احمد صفی نے 2009 میں مشہور زمانہ ویب سائٹ فیس بک پر ابن صفی کے خصوصی صفحے کا آغاز کیا تھا جسے ابن صفی کے چاہنے والوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ تادم تحریر مذکورہ صفحے کے ممبران کی تعداد تقریبا" 1000 تک جاپہنچی ہے۔ راقم الحروف نے ابن صفی کے دیرینہ دوستوں اور ایسی شخصیات جو ابن صفی کے بارے میں مستند رائے رکھتی ہیں، سے ملاقات کرکے ان کے خیالات کو ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ کیا اور یہ تمام ویڈیو کلپس مشہور ویب سائٹ یوٹیوب پر ابن صفی لکھ کر دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان شخصیات میں عبید اللہ بیگ اور کمال احمد رضوی جیسے نابغہ روزگار اشخاص شامل ہیں، ان کے علاوہ شاہد منصور، جان عالم، شکیل صدیقی، انوار صدیقی (انکا، اقابلا اور سونا گھاٹ کا پجاری کے مصنف) اور فلمی اداکار و پروڈیوسر جاوید شیخ نے بھی اپنے تاثرات ریکارڈ کروائے۔ یاد رہے کہ جاوید شیخ کو ابن صفی نے فلم "دھماکہ" میں ماضی کی اداکارہ شبنم کے بالمقابل متعارف کروایا تھا۔ اس فلم کے مصنف ابن صفی تھے، ڈائرکٹر قمر زیدی جبکہ پروڈیوسر محمد حسین تالپور عرف مولانا ہپی تھے۔ فلم دھماکہ 29 دسمبر 1974 کو نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ بدقسمتی سے فلم خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کر پائی اور مولانا ہپی دلبرداشتہ ہوکر اندرون سندھ واپس چلے گئے جہاں سے وہ کراچی کی فلمی دنیا میں قدم رکھنے کی خاطر آئے تھے۔ وہ دن اور آج کا دن، مولانا کبھی میڈیا کے سامنے نہیں آئے اور نہ ہی ان کی کوئی تصویر یا انٹرویو کہیں شائع ہوا۔یہاں اس بات کا ذکر اہم ہے کہ راقم الحروف ایک عرصے سے اس تگ و دو میں تھا کہ کسی طرح مولانا ہپی سے رابطہ ہوپائے۔ حال ہی میں یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی اور ایک مہربان (میجر امین) کے ذریعے مولانا ہپی سے رابطہ ممکن ہوا۔ لیکن تا حال مولانا ہپی کی مصروفیات کی بنا پر ان سے ملاقات ممکن نہیں ہو پائی ہے۔

ابن صفی ایک بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ احمد صفی سے روایت ہے کہ ابن صفی کے الہ آباد یونیورسٹی میں استاد ڈاکٹر اعجاز حسین نے اپنے ہونہار شاگردوں کے تذکرے ‘ملک ادب کے شہزادے‘ میں ان کا تذکرہ ایک شاعر کی حیثیت سے کیا ہے۔ ڈاکٹر اعجاز، ابن صفی سے ہمیشہ اس بات پر خفا رہے کہ اس نے اسرار ناروی کو قتل کردیا تھا۔ ابن صفی کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو:

راہ طلب میں کون کسی کا، اپنے بھی بیگانے ہیں
چاند سے مکھڑے رشک غزالاں سب جانے پہچانے ہیں

مے خانے سے دار تلک اپنی ہی کہانی بکھری ہے
رند بنے سرمستی میں کچھ اور بڑھے منصور ہوئے

بلآخرتھک ہار کے یارو ہم نے یہ تسلیم کیا
اپنی ذات سے عشق ہے سچا باقی سب افسانے ہیں

لکھنے کو لکھ رہے ہیں غضب کی کہانیاں
لیکن نہ لکھ سکے کبھی اپنی ہی داستاں

دل فسردہ ہی سہی، چہرے پہ تابانی ہو
ورنہ خوداری احساس پہ حرف آتا ہے

غم حیات کی دریا دلی نہ پوچھ اسرار
یہ لہلہاتی بہاریں اسی سحاب کی ہیں

اور اس شعر کی داد تو ابن صفی شاید مرزا نوشہ سے بھی لے لیتے:

گھٹ کے رہ جاتی ہے رسوائی تھ
کیا کسی پردہ نشیں سے ملیے

ابن صفی کی شاعری میں اگر سادگی و پرکاری کی کیفیات کا اندازہ لگانا ہو تو یہ اشعار ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں:

مرے لبوں پہ یہ مسکراہٹ
مگر جو سینے میں درد سا ہے

اسی جگہ کیوں بھٹک رہا ہوں
اگر یہی گھر کا راستہ ہے

اور ان نے مندرجہ ژیل شعر کو ان کی ناگہانی وفات کے پس منظر میں دیکھیے تو دل دکھ سے بھر آتا ہے:

ابھی سے کیوں شام ہورہی ہے
ابھی تو جینے کا حوصلہ ہے

جناب احمد صفی کی فراہم کردہ، ابن صفی کی ایک نظم دیکھیے:

محترم دوستو
وہ جو خاموش ہیں جانے کب بول اٹھیں
اس لیے چند چاندی کے چمچے منگاؤ
اور نگراں رہو
جیسے ہی لب کشا ہو کوئی
ایک چاندی کا چمچہ۔۔۔۔۔
اب تمہیں کیا بتانا کہ تم
خود ہی دانا ہو صدیوں سے
چاندی کے اوصاف سے باخبر ہو
عقل و دانش کے پیکر ہو تم
دیدہ ور اور طباع ہو
تیغ اٹھاؤ گے تو تیغ ہی پر اسے
روک لے گا کوئی
دیدہ ور دوستو
صرف چاندی کا چمچہ
تمہارے مسائل کا حل ہے اسے یاد رکھنا

شاعر لکھنوی نے ابن صفی کو بحیثیت شاعر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا:

"شاید عام ذہنوں میں یہ تاثر ہو کہ ابن صفی کی شاعری کا معیار غالبا وہ نہ ہوگا جو ان کے جاسوسی ذہن کا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ لوگ ان کے پٹری بدل لینے کو اسی کا نتیجہ سمجھتے ہوں۔ لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے۔ ان کی نظموں کی رنگا رنگی، غزلوں کی جذباتی اور فنی آرائش اس تاثر کی نفی کرتی ہے بلکہ ہمیں اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ ان کی جاسوسی تحریروں کی کشش، خوبصورتی اور سحر انگیزی میں ان کے شاعرانہ مزاج کی کارفرمائی بڑی حد تک موجود ہے۔ اگر وہ شعر و ادب کی راہ سے ہو کر اس منزل پر نہ آتے تو شاید ان کی تحریروں میں سحریت اور اثر انگیزی کی وہ گھلاوٹ کبھی نظر نہ آتی۔ شعر سب سے بڑا جادو ہے اور غزل سب سے بڑی جادوگر۔ ان کی جاسوسی تحریریں پڑھنے والوں پر جو سحر کاری کرتی ہیں وہ وہ ان کے غزل شناس مزاج ہی کی مرہون منت ہے اسی لیے ان میں پڑھنے والوں پر جادو کردینے کی غیر معمولی صلاحیت ملتی ہے۔ ایک جاسوسی ناول نگار اور ناول نویس کی حیثیت سے وہ میرے ایک شناسا کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ان کی غزلوں اور نظموں کے عمیق مطالعے کے بعد مجھے یہ تمنا ہے کہ کاش وہ میرے دوست ہوتے۔ جہاں تک غزل میں فنی رکھ رکھاؤ، خیال کی ترتیب و تہذیب، الفاظ کر دروبست و معانی کی بزم آرائی کا تعلق ہے، اسرار ناروی کے یہاں یہ خصوصیات اپنی تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ موجود ملتی ہیں""

شاعری میں ابن صفی کے منفرد اسلوب کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایونگ کرسجین کالج الہ آباد میں ابن صفی کے استاد پروفیسر انوار الحق نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ""اسرار جو شاعری کے میدان میں ابھرنے والا تھا، جاسوسی ناول نگار کیسے بن گیا ?"" ۔۔۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابن صفی کے تخلیق کردی 245 ادب پاروں کا جائزہ لینے سے ہمیں ان میں ابن صفی کا ادبی و شاعرانہ تخیل بطریق احسن نظر آتا ہے۔

جون 1960 میں ابن صفی جاسوسی دنیا کا 88 واں ناول پرنس وحشی اور عمران سیریز کا 41 واں ناول بے آواز سیارہ لکھ چکے تھے کہ ان پر شیزوفرینیا نامی بیماری کا شدید حملہ ہوا۔ 1960 سے 1963 تک وہ مکمل طور پر صاحب فراش رہے۔ اس دوران بازار میں طرح طرح کے جعلی صفیوں کی بھرمار ہوگئی۔ (راقم نے ایسے چند جعلی لکھنے والوں کے نام اور ان کی تحریروں کے نمونے وادی اردو پر شامل کیے ہیں)۔ ان میں نجمہ صفی (جس کے باے میں ابن صفی نے بعد میں کہا تھا کہ میرے نام کے قافیے والی ایک صاحبہ بہت عرصے سے غلط فہمی پھیلا رہی ہیں جبکہ میرے والد صاحب بھی ان کے جغرافیے پر روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں)، این صفی، ابْن صفی، ایس قریشی، ابن صقی اور اس قبیل کے بہت سے دوسرے شامل تھے۔

ابن صفی کی بیماری سے متعلق ان کے فرزند احمد صفی اپنے مضمون ‘ابن صفی-چند حقائق‘ میں بیان کرتے ہیں:

" اس بیماری میں ڈیپریشن اور اختلاج بنیادی اثرات ہوتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات نے نیویارک میں اس پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ بہت سے تخلیق کار اس درجہ پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کے ذہن کی کارکردگی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ کہ وہ بہت تیزی سے بہت عمدہ تخلیقات کے ڈھیر لگا دیتے ہیں (جیسا کہ ابن صفی کے قارئین نے دیکھا کہ ایک مہینے میں چار چار ناول تیار ہوجاتے تھے)۔ اس درجہ پر پہنچنے کے بعد ذہن اچانک اپنے آپ کو بند کرلیتا ہپے اور نہ صرف تخلیقی صلاحیتیں منقود ہوجاتی ہیں بلکہ ایک مسلسل ڈپریشن اور اختلاجی کیفت اس پر طاری ہوجاتی ہے جس کے زیر اثر وہ کچھ بھی کر گزر سکتا ہے۔ انہی ماہر نفسیات کے مطابق جس طرح یہ بیماری آتی ہے اسی طرح اچانک پیچھا چھوڑ بھی سکتی ہے۔ اور ابن صفی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ 1963 میں حکیم اقبال حسین کے علاج کے دوران وہ اچانک نارمل ہوگئے۔"

ابن صفی نارمل کیا ہوئے، ان کے نقالوں کی تو گویا موت واقع ہوگئی۔ وہ جاسوسی ادب کے میدان میں واپس آئے تو اس شان سے کہ عمران سیریز کا ناول ڈیڑھ متوالے لکھا جو ایک انتہائی دلچسپ ناول ہے، ناول کیا ہے لکھا لکھایا اسکرپٹ ہے کہ فلم بنانے کے لیے لوکیشنز منتخب کی جائیں اور بلا تامل فلم بندی کا آغاز ہوجائے۔ ابن صفی کے کئی ناولز پر جاسوسی، نفسیاتی، مہماتی اور آرٹ فلمیں بنائی جاسکتی ہیں کہ حیات و کائنات کا کونسا ایسا مسْلہ ہے جسے انہوں نے اپنی تحریروں میں نہ چھیڑا ہو۔ ان میں محدود پیمانے پر موروثی ہوس، موت کی آندھی، گیارہواں زینہ، وبائی ہیجان، پتھر کی چیخ، گارڈ کا اغوا، شاہی نقارہ، سائے کی لاش جیسے شاہکاروں کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ابن صفی کی شخصیت ایک ہمہ گیر شخصیت تھی۔ بنیادی طور پر چونکہ وہ ایک اعلی پائے کے شاعر تھے، اسی لیے ان کے ناولوں کے نام بھی ان کے ادبی و شاعرانہ ذوق کے عکاس ہوتے تھے۔ ٹھنڈی آگ، سہمی ہوئی لڑکی، تاریک سائے، سبز لہو، لاش گاتی رہی، آوارہ شہزادہ، چاندنی کا دھواں، چمکیلا غبار، چیختے دریچے، ٹھنڈا سورج، خوشبو کا حملہ وغیرہ۔

ابن صفی نجی زندگی میں ایک ہمدردانہ دل رکھنے والے انسان تھے۔ ان کے برادر نسبتی مبین احسن سے روایت ہے کہ "ایک بار اسرار بھائی (ابن صفی) نے میرے محکمے کے ایک ملازم کی ترقی کے بارے میں مجھ سے کہا اور ان صاحب کی ترقی اتفاقا" میرے ہی دستخط سے ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ یہ صاحب انہی (ابن صفی) کے لیے مار آستین ثابت ہوئے۔ مرزا حیدر عباس بیان کرتے ہیں کہ "ایک آدمی نے ابن صفی کے ساتھ فراڈ کیا۔ ابن صفی نے مقدمہ کردیا، اس آدمی کو سزا ہوگئی۔ جب معلوم ہوا کہ اس کے بیوی بچوں کا کوئی سہارا نہیں ہے تو انہیں اپنے پاس سے وظیفہ دینا شروع کردیا۔"

ابن صفی نے اپنے ناولوں میں مستقل کرداروں سے قطع نظر چند ایسے کردار تخلیق کیے جو ذہنوں سے چپک کر رہ جاتے ہیں اور خیر و شر کے جیتے جاگتے نمونے بن کر سامنے آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کردار ان کے ناول "لاشوں کا آبشار" کا مسٹر کیو ہے جو کسی شخص کی ناجائز اولاد ہوتا ہے۔ درجنوں انسانوں کے قاتلوں کی حیثیت سے وہ عدالت میں اپنا بیان دیتا ہے اور جو کچھ ابن صفی اپنے اس کردار کی کہہ گئے ہیں وہ قابل غور ہے۔ ایک ایسا نازک و حساس موضوع ہے جس پر قلم اٹھانے کی جرات بڑے بڑوں کو نہ ہوئی۔ مذکورہ ناول کے اختتام پر، مسٹر کیو قانون کی حراست میں ہوتا ہے اور بھری عدالت میں چند لمحے وہاں موجود مجمع کو گھورتا ہے اور پھر گرج کر کہتا ہے:

""میں ایک شخص کی ناجائز اولاد ہوں۔۔۔مجھے بتاؤ میں کیا کرتا ? مجھے جواب دو۔۔۔مادر زاد اندھر ہندؤں میں سورداس اور مسلمانوں میں حافظ جی کہلاتے ہیں لیکن میں۔۔ میں کیا بذات خود ایک بہت بڑی مجبوری نہیں تھا ? ۔۔۔۔میں کیا ایک بیماری کی طرح پیدا نہیں ہوا تھا ? ۔۔۔۔ اگر میں شاستر پڑھ لیتا، تب بھی ناجائز ہی رہتا۔۔ اگر قران بھی حفظ کرلیتا تو بھی لوگ مجھے حافظ کہتے ہوئے ہچکچاتے۔۔ آخر کیوں۔۔۔کیا میں بھی ایک اندھے اور لنگڑے کی اپنی پیدائش کے معاملے میں بے بس نہیں تھا ? ۔۔۔۔ میں تمہارے خدا سے پوچھتا ہوں کہ اس نے ناجائز کو کیوں اپنے بندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے ?۔۔۔۔۔ وہ سج کا میں نظفہ ہوں، اگر تائب ہوکر مولوی یا پنڈت ہوگیا ہو تو لوگ اس کے قدم چوم رہے ہوں گے اور وہ بہشت یا سورگ کی آس لگائے بیٹھا ہوگا۔ لیکن میں۔۔۔۔۔ میں کس طرح خود کو بدل سکتا ہوں۔۔۔۔۔میں ناجائز ہوں ۔۔ کوئی عادت نہیں کہ بدل جاؤں۔۔۔۔۔۔۔میں ماضی، حال اور مستقبل، تینوں سے محروم ہوں ۔۔۔۔۔ حال میں اس لیے کامیاب رہا کہ میں خود کو چھپانے میں کامیاب ہوگیا۔۔۔ اگر واقعی کوئی دوسری زندگی بھی ہے تو میں اس بھی مایوس ہوں اس لیے کہ کیونکہ بعض مذہب ناجائز کو بہرحال جہنمی قرار دیتے ہیں، کہتے ہیں کہ ناجائز ہر حال میں مرنے سے قبل خود کو جہنم کا مستحق بنا لیتا ہے۔۔۔۔ چلیے! ناجائز کو راہ مستقیم سے بھی محروم کردیا گیا۔۔۔۔۔پھر آخر کیا کرے۔۔۔کہاں جائے۔۔۔بتاؤ نا! بولو۔۔ جواب دو۔۔۔۔""

ابن صفی اپنے ذاتی نظریے میں صرف اور صرف اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کے قائل تھے جیسا کہ انہوں نے اپنی ایک کتاب کے پیشرس میں کہا تھا کہ "" میں معاشرے میں صرف اللہ کی ڈکٹیٹر شپ چاہتا ہوں۔ تم انفرادی طور پر اپنی حالت سدھارتے جاؤ، پھر دیکھو کتنی جلدی ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جس پر اللہ کی حاکمیت ہو۔

ناول "پاگلوں کی انجمن"" سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

"" تمہارا ظاہر کچھ بھی ہو لیکن مسلمان ہونا چاہیے۔ کچھ نیکیاں سچے دل سے اپنا کر دیکھو۔ آہستہ آہستہ تم خود ہی کسی جبر و کراہ کے بغیر اپنا ظاہر بھی اللہ کے احکامات کے مطابق بنالو گے۔ قرآن کو پڑھو، اسی پر عمل کرو، اسے علم الکلام کا اکھاڑا نہ بناؤ۔""

اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں کہ "آپ سیاست میں کس ازم کے قائل ہیں""، ان کا کہنا تھا:

"" میں تو اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قائل ہوں۔ اس میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ جتنے پگ کا نشہ ہو، ویسا ہی بیان داغ دیا۔ آپ بھی کسی ازم میں پڑنے کے بجائے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کیجیے۔ سارے ازم محض وقتی حالات کی پیداوار ہیں اور کسی ایک ازم کی دشواری زمانے میں دوسرے ازم کی پیدائش کا سبب بنتی رہتی ہے۔ اسلام کے علاوہ کوئی بھی ازم حرف آخر ہونے کا دعوی نہیں کرسکتا۔ اسلامی نظام حیات آج بھی قابل عمل ہے لیکن اس کے لیے انفرادی طور پر ایماندار بننا پڑے گا اور یہ بےحد مشکل کام ہے۔ پس میرا سیاسی رجحان اللہ کی ڈکٹیٹر شپ کا قیام اور اور میرا فن سکھاتا ہے قانون کا احترام۔""

اسی مذہبی پس منظر میں دیکھیے تو ابن صفی کی شخصیت کا ایک اور دلنواز پہلو سامنے آتا ہے۔ پروفیسر مجنوں گورکھپوری سن 1972 میں ابن صفی پر اپنے مضمون "اردو میں جاسوسی افسانہ" میں ایک جگہ تحریر کرتے ہیں "" ایک جگہ ابن صفی نے صلواتیں کا لفظ استعمال کیا ہے جو طباعت میں "ص" سے ہے مگر ذیلی حاشیے میں مصنف نے یہ نوٹ لگایا ہے کہ کاتب کی غلطی ہے اور وہ خود "س" سے "سلواتیں" لکھتے ہیں اور اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ ایسا کیوں لکھتے ہیں۔ "صلواتیں" گالیوں کے معنوں میں نثر و نظم کے اساتذہ استعمال کرتے آئے ہیں لیکن انہوں نے ہمیشہ اس لفظ کو "س" سے لکھا ہے۔""

مجنوں صاحب کے مذکورہ مضمون کے حاشیے میں ایچ اقبال صاحب کا نوٹ ملاحظہ ہو جو انہوں نے پروفیسر صاحب کے ابن صفی پر متذکرہ اعتراض کے جواب میں تحریر کیا:

"" میں نے ابن صفی صاحب سے اس موضوع پر گفتگو کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ "صلوات" کا ربط خاص ""صلوات بر محمد صلی اللہ و علیہ وسلم"" سے ہے اس لیے وہ احتراما اس لفظ کو برا بھلا کہنے کے معنوں میں استعمال نہیں کرتے اور جب اس کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے تو اسے "س" سے لکھتے ہیں۔""

عالمی افق کی ہمہ وقت بدلتی صورتحال پر ابن صفی کی ہمیشہ گہری نظر رہی۔ ترقی پسند تحریک ہو یا پھر وطن عزیز کے لیے ایٹمی پراسسنگ پلانٹ کا حصول، ان کی تحریروں میں جابجا ان معاملات کا ذکر ملتا ہے۔ ان کے دیرینہ دوست اور شاعر و ادیب، جناب شاہد منصور نے اسی موضوع ہر اپنے ایک مضمون میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے، وہ لکھتے ہیں:

"" ہمارے ملک پر بھی ایک ایسا وقت آن پڑا تھا کہ یار لوگوں نے سبز پاکستان کو سرخ کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ اس گھبیر وقت کا سامنا کرنے میں بھی ابن صفی صف اول میں سینہ سپر تھے۔ انہوں نے پے درپے اپنے کئی ناولوں میں نہ صرف اس مسئلے کو اٹھایا بلکہ ان ریشہ دوانیوں کا بھی بڑی چابکدستی سے پردہ فاش کیا جو سفارتی ہتھکنڈوں سے ثقافتی سرگرمیوں کے پردے میں کی جارہی تھیں۔ یہاں میں (شاہد منصور) آپ کی خدمت میں ابن صفی کی ایک دھماکہ خیر غزل پیش کررہا ہوں جو ان کی کتاب پاگلوں کی انجمن (سن اشاعت: سن 1970 - راقم) میں استاد محبوب نرالے عالم کی زبانی پیش کی گئی۔ ذرا اس کے پرمعنی طنز اور اس کی تشبیہوں اور استعاروں پر غور کیجیے اور دیکھیے کہ ابن صفی کا سینہ کیسے دینی جوش سے پر تھا اور اپنے قلم کو ہتھیار بنا کر کس طرح انہوں نے اپنے عہد کی خوفناک زہرناکی کا مقابلہ کیا:

اک دن جلال جبہ و دستار دیکھنا
ارباب مکر و فن کو سر دار دیکھنا
سنتے رہیں کسی بھی دریدہ دہن کی بات
ہم بھی کھلے تو جوش گفتار دیکھنا
قرآن میں ڈھونڈتے ہیں مساوات احمریں
یارو! نیا یہ فتنہ اغیار دیکھنا
ورد زباں ہیں خیر سے آیات پاک بھی
ہے ہرمن یہ خرقہ و پندار دیکھنا
کل تک جو بتکدے کی اڑاتا تھا دھجیاں
اس کے گلے میں حلقہ زنار دیکھنا
لائی گئی ہے لال پری سبزہ زار میں
ہوتے ہیں کتنے لوگ گناہ گار دیکھنا
فرصت ملے جو لال حویلی کے درس سے
اک بوریہ نشیں کے بھی افکار دیکھنا

ابن صفی ایک اعلی درجے کے مزاح نگار تھے۔ مزاح لکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ اسٹیفن لیکاک مزاح کی تعریف کچھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ "یہ زندگی کی ناہمواریوں کی اس ہمدردانہ شعور کا نام ہے جس کا فنکارانہ اظہار ہوجائے۔" ۔۔ ابن صفی نے اس فنکارانہ اظہار میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جاسوسی دنیا کا کردار قاسم اور استاد محبوب نرالے عالم اس کی چند پہترین مثالیں ہے۔ قاسم کا کردار ایک دبیل اور عقل سے پیدل کردار ہے جو کیپٹن حمید کے ساتھ ساتھ نظر آتا ہے اور مختلف موقعوں پر حمید اور کرنل فریدی کےلیے جہاں مشکلات پیدا کرتا ہے وہاں کئی مہمات میں ان کے لیے سہولت کار کا کام بھی انجام دیتا ہے۔ ابن صفی اپنے ناولوں میں ایسی پرلطف صورتحال پیدا کرتے تھے کہ ان کے قارئین بے چینی سے کہانی میں ان کرداروں کی آمد کے منتظر رہا کرتے تھے۔ سیچویشنل کامیڈی کی ایک بہترین مثال عمران سیریز کا ناول ‘چار لکیریں‘ ہے جس کا ابتدائی جملہ پڑھ کر بے اختیار حلق سے قہقہ ابل ہڑتا ہے۔ کہانی میں کچھ یوں ہوتا ہے کہ کیپٹن فیاض اپنی ایک جاگیردار دوست کے یہاں بسلسلہ پارٹی مدعو کیے گئے۔ وہ جاگیردار صاحب عمران کے ساتھ آکسفورڈ میں اکھٹے پڑھتے رہے تھے۔ کیپٹن فیاض کی جو شامت آئی تو اس نے عمران کے دعوت نامے پر مسٹر اینڈ مسز عمران لکھ دیا۔ کچھ تو تفریح کی خاطر اور کچھ یہ سوچ کر بھی کہ شاید عمران روشی (ایک طرحدار عورت) کو بھی ساتھ لیتا آئے گا جس کی خوش مزاجی کیپٹن فیاض کو بیحد پسند تھی۔ اب ناول کا ابتدائی جملہ ملاحظہ ہو:

" اس وقت کیپٹن فیاض کی کھوپڑی ہوا میں اڑ گئی جب اس نے عمران کے ساتھ شہر کی ایک طوائف دیکھی۔"

بقیہ صورتحال کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معززین اور شرفا کی اس تقریب میں عمران صاحب جس طوائف کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے وہاں اس کی وجہ سے کیا کیا نہ حماقتیں پھیلی ہوں گی۔

اسی طرح عمران سیریز کے ایک ناول ‘بحری یتیم خانہ‘ کی ابتدا ایک نائٹ کلب میں کلاسیکی موسیقی کے پروگرام سے ہوئی۔ عمران صاحب وہاں موجود تھے۔ استاد لفگار ٹھمری کا آغاز کرتے ہیں اور ‘نندیا کاہے مارے بول‘ کی جو تکرار شروع کرتے ہیں تو عمران سات منٹ کے انتظار کے بعد استاد لفگار کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوجاتا ہے ۔ "حضور! اب آپ کی تکلیف نہیں دیکھی جاتی، آپ مجھے اپنی نندیا کا پتہ بتائیں، ابھی دوڑ کر پوچھ آتا ہوں کہ کاہے مارے بول۔" ۔۔۔ استاد کی تنک مزاجی مشہور تھی۔ انہوں نے پیلے تو عمران کو حیرت سے دیکھا اور پھر ُسر منڈل پھینک کر انہوں نے عمران کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی۔ ہنگامہ ہوگیا۔ کسی نے پوچھا کہ یہ کیا بے ہودگی ہے تو عمران صاحب غصیلے لہجے میں بولے " ان کی نندیا میری بھی رشتے دار ہیں، میں ان کو اس کی اجازت نہیں دے سکتا کہ پیبلک مقامات پر ان کی توہین کرتے پھریں"۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں مینیجر بھی آپہنچا۔ اس نے عمران کی شکل دیکھی تو بری طرح گڑبڑا گیا۔ ""کیا بات ہے جناب عالی"" وہ گڑگڑایا۔۔۔۔عمران استاد کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا "" باجہ بجا کر میری عزیزہ کی توہین کررہے ہیں جناب"" ۔۔۔۔ ادھر استاد لفگار دھاڑے "ارے یہ بہرام خان حرام خان کا کوئی گُرگا ہے حرامی" ۔۔۔ " آپ غلط کہہ رہے ہیں جناب " عمران ادب سے بولا "میں آپ کی نندیا کا سالا ہوں۔"

ابن صفی کے ناولوں کے پیشرس بھی اپنی جگہ کلاسیکی درجہ رکھتے ہیں۔ اکثر و بیشتر تو وہ اپنے قارئین سے نوک جھونک کے موڈ میں رہا کرتے تھے۔ بعض پڑھنے والے ان کو کس کس طرح کے سوالات کرکے بور کیا کرتے تھے اور وہ ان کو ایسے جوابات دیا کرتے تھے کہ بیجا اور نامنسب تنقید کرنے والے کٹ کر رہ جائیں۔ جاسوسی دنیا کے ایک ناول کے پیشرس میں ٹنڈو آدم کی ایک ٹیلیفون آپریٹر ابن صفی کے سابقہ ناول کو محض بکواس قرار دیتے ہیں، ان کی دانست میں ناول کے نام سے اس کے پلاٹ کا کوئی میل نہ تھا۔ ابن صفی لکھتے ہیں کہ ٹیلیفون آپریٹر صاحب نے آتشی بادل کا اشتہار دیکھ کر اس کے بارے میں کچھ اس قسم کی کہانی خود بنائی ہوگی کہ آگ برساتا ہوا ایک بادل ہے جو تمام شہر پر مسلط ہوگیا ہے، عمارتیں دھڑا دھڑ جل رہی ہیں، پھر عمران اخیر میں اپنی پناہگاہ سے قہقہے لگاتا ہوا برآمد ہوتا ہے اور اس سائنسدان کا ٹیٹوا دباتا ہے جو ایک مشین کے ذریعے آتشی بادل بنا بنا کر فضا کو سپلائی کررہا تھا۔

آخیر میں ابن صفی ایک ایسی بات لکھتے ہیں کہ پڑھنے والا اچھل پڑے۔۔۔ " یار ٹنڈو آدمی صاحب، خود ہی لکھ کر پڑھ لیا کرو۔"

غور فرمایا آپ نے ٹنڈو آدمی کی نادر ترکیب پر۔

اسی طرح چاٹگام سے ایک صاحب ابن صفی کو کتابیں لکھنا ترک کر کے ترکاری بیچنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ ابن صفی ان صاحب کو ایک طویل سنجیدہ جواب دیتے ہیں لیکن آخر میں چٹکی لینے سے باز نہیں آتے: " بھئی اپنا نام تو صاف لکھا کریں۔ پہلی نظر میں بدھو داس معلوم ہوتا ہے۔ غور کرو تو رولس رائس پڑھا جاتا ہے۔ ذرا ترچھا کرکے دیکھو تو چلو واپس گھسیٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔"

ڈیڑھ متوالے کے پیشرس میں وہ اپنے پڑھنے والوں سے عرصہ تین برس کے بعد یوں مخاطب ہیں: " رہی مختلف قسموں کے ابنوں اور صفیوں کی بات تو یہ بیچارے سارے قافیے استعمال کرچکے ہیں لہذا اب مجھے کسی ‘ابن خصی‘ کا انتظار ہے، میری دانست میں تو اب یہی قافیہ بچا ہے۔

ایک دوسری جگہ اسی ضمن میں شکوے کا دلنشیں و بذلہ سنج انداز ملاحظہ ہو، کہتے ہیں:

"" مجھے ان کماؤ پوتوں پر ذرا غصہ نہیں آتا۔ بس صرف اتنی سی بات گراں گزرتی ہے کہ لکھنے والے اپنے باپ کا نام بتانے کے بجائے میرے ہی باپ کا نام بتانے لگتے ہیں۔ وہ بھی اس انداز میں کہ میں ہی معلوم ہوں اور وہ ایک آدھ نکتے کے فرق سے کتابیں خریدنے والوں کو دھوکا سے سکیں۔ ایسے آئیے آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں۔۔۔۔ وہ یہ کہ باپ کا نام بتائے بغیر کوئی جاسوسی ناول نویس کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ مگر شرط یہ ہے کہ نام میرے ہی باپ کا بتایا جائے۔""

ابن صفی کے ناولوں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں کہ جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ کہیں غلطی سے وہ مروجہ ادب کے میدان میں باضابطہ قدم رکھ دیتے تو بڑے بڑوں کی چھٹی ہوجاتی اور اس لحاظ سے چار حرف لکھ کر اہل کمال ہوجانے والوں کو ابن صفی کا احسان مند ہونا چاہیے کہ انہوں نے ان کو کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا:

(1)
اگر خود غرضی اور جاہ پرستی سے منہ موڑ لیا جائے، ایک نئے انداز کی سرمایہ داری کی بنیاد ڈالنے کے بجائے خلوص نیت سے وہی کیا جو کہا جاتا رہا ہے تو عوام کی جھلاہٹ رفع ہوجائے گی۔ ضروت ہے کہ انہیں قناعت کا سبق پڑھانے کی بجائے ان کی خودی کو ابھارا جائے جیسا کہ بعض دوسرے ملکوں میں ہوا ہے۔ اللہ کبھی اس پر برہم نہیں ہوسکتا کہ کوئی قوم اپنے حالات کو مدنظر رکھ کر اپنے وسائل کی تقسیم کا مناسب انتظام کرلے۔

(2)
ان کا طرز حکومت جمہوری کہلاتا ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مغز چند آدمیوں کے حصے میں آئے اور ہڈیاں عوام کے سامنے ڈال دی جائیں۔ یہ اپنے مسائل طاقت ہی سے حل کرتے ہیں مگر اسے اشتراک باہمی کا نام دیتے ہیں۔ اس کے حاکم خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں۔ عوام ہی انہیں حکومت کے لیے منتخب کرتے ہیں لیکن یہ ان کی مالی قوت ہی ہوتی ہے جو انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچاتی ہے لیکن وہ اسے عوام کی قوت اور رائے عامہ کہتے ہیں۔ حالانکہ رائے عامہ مالی قوت ہی سے خریدی جاتی ہے۔ انہٰیں منتخب ہونے کے لیے اپنے مخالفوں کے خلاف بڑے بڑے محاذ قائم کرنے پڑتے ہیں۔ ایک خطرناک جنگ شروع ہوتی ہے اور اس جنگ کو رائے عامہ ہموار کرنا کہا جاتا ہے۔ اس میں بھی طاقت ہی کی کارفرمائی ہوتی ہے۔ آخر ایک آدمی مخالفوں کو کچلتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے۔

(3)
ہماری زمین کے سینے میں کیا نہیں ہے مگر ہم مفلس ہیں۔۔۔۔کاہل ہیں۔۔۔۔۔ہمیں باتیں بنانی آتی ہیں۔ ہم تقریر کرسکتے ہیں، ایک دوسرے پر اپنی ذہنی برتری کا رعب ڈال سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے کے لیے اپنی بہترین صلاحیتیں ضائع کرسکتے ہیں۔ لیکن ہم سے تعمیری کام نہیں ہوسکتے۔

(4)
میں جانتا ہوں کہ حکومتوں سے سرزد ہونے والے جرائم، جرائم نہیں حکمت عملی کہلاتے ہیں۔ جرم تو صرف وہ ہے جو انفرادی حیثیت سے کیا جائے۔

(5)
تربیت ضروری چیز ہے، یہ کیا کہ ایک معمولی کلرک کو کلرکی کا امتحان دینا پڑے۔ ایک پولیس کانسٹیبل، رنگروٹی کا دور گزارے بغیر کام سے نہ لگایا جائے لیکن ترکاریوں کے آڑھتی، بے مروت جاگیردار اور گاؤدی قسم کے تاجر براہ راست اسمبلیوں میں جابیٹھیں اور قانون سازی فرمانے لگیں اور ان ہی میں سے کچھ کابینہ کے ارکان بن جائیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ نچلی سطح پر امتحانات اور ٹریننگ کا چکر چلتا رہے اور اوپر جس کا دل چاہے پہنچ جائے۔ بس جیب بھاری ہونی چاہیے، نہ کوئی امتحان اور نہ کوئی ٹریننگ۔

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ فن کردار نگاری جو کسی بھی کہانی، افسانے یا ناول کا بنیادی وصف ہوتا ہے، ابن صفی کے قلم کی بدولت ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دوام حاحل کرچکا۔ اعلی و ارفع ادب کے ‘رہنماؤں‘ کو پتہ ہی نہ چلا کہ 26 جولائی 1980 کو ان کے درمیان سے کس بلا کا اورکس غضب کا کردار نگار اٹھ گیا۔ ادب کے ان رہنماؤں کی نظر میں جرم و سزا کی کوئی وقعت ہی نہیں۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ جرائم کس طرح سماج کو تنزلی کی جانب دھکیلتے ہیں۔ جرائم اور سماج کی مثال آندھی اور جھونپڑیوں کی سی ہے۔ ازل ہی سے جرائم انسانی زندگی اور سماج پر آندھیوں کی طرح جھپٹتے آئے اور ان کے تدارک کے لیے اچھے سے اچھا ادب پیدا کرنا ادیبوں کا فرض ہے۔ اسے تہسرے درجے کا ادب قرار دے کر اس کی طرف سے آنکھیں بند کرلینا ناانصافی ہے۔ انگریزی ادب میں جاسوسی کردار نگاری کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ایڈگر ایلن پو (1849-1809) زیڈگ از والئیٹیر (1778-1694)، تھری مسکیٹرز از الیگزنڈر ڈوما (1870-1802)، ہیومن کامیڈی از بالزاک (1850-1799)، مون اسٹون از وکی کولنز (1889-1834)، بلیک ہاؤس از چارلس ڈکنز (1870-1812)، گن فار سیل از گراہم گرین وغیرہ وغیرہ۔

اردو ادب کی کئی نامور شخصیات ابن صفی کے فن کو سراہتی نظر آتی ہیں۔ جون ایلیا سے روایت ہے کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق نے ایک بار کہا تھا کہ اس شخص (ابن صفی) کا اردو پر بہت بڑا احسان ہے۔ ان کے علاوہ جن اشخاص نے ابن صفی کی برملا تعریف کی ہے ان میں پروفیسر حسن عسکری، پروفیسر مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ابراہیم جلیس، سرشار صدیقی، شاعر لکھنوی، رئیس امروہوی، جون ایلیا، امجد اسلام امجد، کالم نگار حسن نثار، ہندوستانی شاعر و مکالمہ نویس جاوید اختر، عبید اللہ بیگ، پروفیسر گوپی چند نارنگ، بشری رحمان، قاضی اختر جونا گڑھی، ڈاکٹر خالد جاوید (جن کی نگرانی میں جامعہ ملیہ دہلی میں ابن صفی کے ناولوں کے حوالے سے عنقریب ایم فل اور ایک پی ایچ ڈی کی تھیسس جمع ہونے والی ہے)، شاہد منصور، صحافی و ادیب مشتاق احمد قریشی، پروفیسر انوار الحق، حریت کے کالم نگار و مشہور صحافی و ادیب نصر اللہ خان وغیرہ وغیرہ۔ اردو ادب کی مختصر ترین تاریخ میں ڈاکٹر سلیم اختر نے ابن صفی کا ذکر کیا ہے۔ اسی طرح اردو کے ممتاز افسانہ نگار سید محمد اشرف نے ذہن جدید کے ادب پیما میں اردو کے دس بڑے لکھنے والوں میں ابن صفی کا ذکر کیا ہے۔

یہاں محترم رئیس امروہوی کا ابن صفی کے انتقال کے بعد مندرجہ ذیل بیان گویا اعترافی بیان سمجھا جانا چاہیے۔ ابن صفی پر اپنے مضمون "جوئے خوں بہتی ہے" میں رئیس صاحب لکھتے ہیں:

"" جب تک ابن صفی زندہ تھے، ہم سمجھتے تھے کہ ہم ان سے بے نیاز ہیں لیکن اب ہمیں اپنی محرومی اور نیازمندی کا احساس ہوتا ہے۔ اب ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کس بے شرمی اور سنگ دلی سے اپنے ایک باکمال ہم عصر کو نظر انداز کررکھا تھا۔ یہاں ‘ہم‘ سے مراد عام قاری نہیں کہ وہ تو ابن صفی کا عاشق تھا۔ ‘ہم‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ناول، افسانے اور داستاں سرائی کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔""

ڈاکٹر خالد جاوید نے ایک بار کہا تھا کہ "" ابن صفی اردو میں ایک روایت کا نام ہیں مگر یہ روایت ان کے ساتھ ہی ختم ہوگئی۔ ہماری تنقید نے ان کے ساتھ سگا یا سوتیلا، کسی قسم کا برتاؤ نہیں کیا۔ یہ اسی قسم کی صورتحال ہے جیسے اعلی قسم کا فلم بین طبقہ اور سنیما کے ناقدین نصیر الدین شاہ کے ساتھ دلیپ کمار کا نام لیتے ہوئے ہونٹ دبا لیتے ہیں یا موسیقی کا اعلی ذوق رکھنے والا طبقہ اشرافیہ بھیم سین جوشی کے ساتھ محمد رفیع کے بارے میں کچھ کہنے میں ہتک محسوس کرتا ہے۔ تو کیا "پاپولر" کو صرف اس لیے نکال باہر کیا جائے کہ عوام نے اسے پسند کیوں کیا۔ ترقی پسند حضرات کو اس پر اور بھی زیادہ غور و خوص کرنے کی ضرورت ہے۔""

کاش کوئی اس بارے میں سوچے کہ شہر کراچی کی، جہاں ابن صفی تمام عمر قیام پذیر رہے، کوئی سڑک، فلائی اوؤر یا کسی عمارت کا نام ان کے نام پر رکھ دیا جائے۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی کو چاہیے کہ ابن صفی پر بلاتاخیر تحقیقی کام شروع کرائے کہ اس سے فن جاسوسی ناول نگاری کے خد و خال ابھر کر سامنے آئیں گے۔

ابن صفی کی ادبی حیثیت کا تعین نہ ہوسکا۔۔۔۔۔ ابن صفی اور جاسوسی ادب سے ادب کے ٹھکیداروں کی الرجی ختم نہ ہوسکی۔ جدید جاسوسی ادب کی تاریخ ابن صفی کو کبھی فراموش نہ کرسکے گی اور اگر اس کی مرتکب ہوئی تو اس کا حشر بھی ان نقالوں کا سا ہوگا جو ابن صفی کے نام کے قافیے سے ملتے جلتے نام رکھ کر پڑھنے والوں کو دھوکا دیتے رہے ہیں۔ جب انسانوں کی کوئی جماعت اللہ تعالی کے احکام اور اس کی اطاعت سے مسلسل روگردانی کرتی ہے تو آخر کار غیرت الہی جوش میں آجاتی ہے اور طرح طرح کے عذاب نازل ہوتے ہیں لیکن جس قوم کو سب سے بڑھ کر عبرتناک سزا دینا مطلوب ہوتا ہے، اللہ تعالی اس کے چہرے کو مسخ کردیتا ہے اور ایسے لوگ اپنی شناخت گم کردیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ادب کے ان نام نہاد ٹھکیداروں کا چہرہ بھی مسخ ہوگیا ہے۔۔۔۔ان کی شناخت گم ہوگئی ہے! جہاں قول فعل کو اپنے پیچھے ہانپتا چھوڑ آئے وہاں حرف اپنی حرمت و تاثیر کھو دیتا ہے۔

ابن صفی ایک ایسا بت تھے جسے توڑنے کی، مایوس و پژمردہ کرنے کی، نیچا دکھنے کی اور اس کی نقالی میں قارئین کو گمراہ کرنے کی بڑے بڑے بت شکنوں نے تمام عمر سعی کی تھی۔ مگر جب ایسے لوگوں کے ہتھوڑے اور تیشے اس بت کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے سستانے لگتے تھے، وہ ٹکڑے ازسرنو اکھٹا ہوکر اس خوبصورت بت کی شکل اختیار کر لیتے تھے جس کا نام ابن صفی ہے اور جو اپنے تنقیص نگاروں کو مخاطب کرکے اپنی نرم ، شیریں اور مدھم آواز میں کہتا ہے:

فہم و فراست خواب کی باتیں، جاگتی دنیا پاگل ہے
عقل کا سورج ماند ہوا ہے، ذروں کی بن آئی

ابن صفی نے جس مسلک کج کلاہی کی طرف سمت ایک دفعہ اپنا قبلہ راست کرلیا، پھر اسے تاعمر نہیں بدلا اور اپنے اسی عہد وفا میں علاج گردش لیل و نہار ڈھونڈا۔ اور یہ انہوں نے اس زمانے میں کیا جب اردو زبان کے سری ادب کو تازہ خون کی اشد ضرورت تھی۔ کتنے ایسے ہیں جو قریبا نصف صدی تک ایک ہی وضع پر قائم رہے ہوں ? جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ابن صفی کے چنے ہوئے راستے سے ادب کے رہنماؤں کو اختلاف رہا ہے لیکن اپنی تحریروں کے ذریعے اردو زبان کے پھیلاؤ، قانون کا احترام اور پڑھنے والوں کی ذہنی و فکری تربیت جیسے کام جس پامردی و استقامت سے انہوں نے کیے وہ لائق تحسین و تکریم ہیں۔ ابن صفی اس طرح جیے، جس طرح جینا چاہیے اور یوں شتابی سے رخصت ہوئے، جس طرح وہ رخصت ہونا چاہتے تھے:

جس طرح آئے گی، جس روز قضا آئے گی
خواہ قاتل کی طرح آئے کہ محبوب صفت
دل سے بس ہوگی یہی حرف ودع کی صورت
للہ الحمد! باانجام دل دل زدگان
کلمہ شکر بنام لب شیریں دہناں

ابن صفی کے ادبی مقام کا تعین کرنا ہماری سب سے بڑی اخلاقی ذمہ داری ہے

تحریر: راشد اشرف
ای میل: zest70pk@gmail.com

3 comments:

  1. راشد اشرف بھائی
    اتنے اہم اور قیمتی مضمون کی پیش کشی کا بہت بہت شکریہ۔
    آپ نے لکھا ہے کہ ۔۔۔۔
    سن 1972 کے الف لیلہ ڈائجسٹ کے ابن صفی نمبر کا مکمل ریکارڈ ۔۔۔۔
    اس ریکارڈ کا لنک بھی ضرور دیجئے گا
    انتظار ہے

    ReplyDelete
  2. باذوق بھائی! وعلیکم السلام

    آپ نے پہلے بھی الف لیلہ کے اس نمبر کا کہا تھا
    اسکین کرکے وادی اردو پر شامل کردیا ہے، لنک حاضر ہے:

    http://www.wadi-e-urdu.com/category/alif-laila-digest-1972-ibne-safi-number/

    خیر اندیش
    راشد
    کراچی سے

    ReplyDelete
  3. بہت خوب ۔ ۔ ۔ ایک جہان تھے اور منفرد
    اللہ مغفرت فرمائے، رحم کا معاملہ کرے اور درجات بلند ہوں

    ReplyDelete