2009/06/28

ابن صفی : اگاتھا کرسٹی کا اظہارِ خیال

سہیل اقبال لکھتے ہیں :
غالباً 1965ء کی بات ہے۔ میں ابن صفی کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ دو اصحاب کی آمد کی اطلاع ملی۔ انہوں نے ان حضرات کو بھی وہیں بلوا لیا جہاں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔
یہ حضرات وصی اختر شوق اور روزنامہ "حریت" کے اے۔آر۔ممتاز تھے۔ شوق صاحب ریڈیو کے جشن تمثیل کے لیے ابن صفی سے ایک ڈرامہ لکھوانا چاہتے تھے۔

بات جاسوسی لٹریچر کی چھڑ گئی اور ابن صفی کے نقالوں تک جا پہنچی۔ اس پر شوق صاحب نے بتایا کہ :
پچھلے دنوں مغرب کی نامور جاسوسی مصنفہ " اگاتھا کرسٹی - Agatha Christie " کہیں جاتی ہوئی کراچی ایرپورٹ سے گزری تھیں۔ کچھ لوگوں کو پہلے سے علم تھا کہ وہ کچھ دیر وی۔آئی۔پی لاؤنج میں قیام کریں گی۔ وہ لوگ ان سے ملنے گئے۔
کسی نے دورانِ گفتگو پاکستانی جاسوسی لٹریچر کا ذکر کیا تو اگاتھا کرسٹی مسکرائیں اور بولیں :

"مجھے اردو نہیں آتی لیکن برصغیر کے جاسوسی لٹریچر سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتی ہوں۔ صرف ایک اوریجنل رائیٹر "ابن صفی" ہے اور سب اس کے نقال ہیں۔ کسی نے بھی اس سے ہٹ کر کوئی نئی راہ نہیں نکالی۔"

پیش رس :: رات کا شہزادہ

اس بار خطوط کی تعداد بھی پہلے سے زیادہ ہے۔ مشورے ، تنقید اور تنقیص ، یکساں انداز کی باتیں۔ لہذا ان کے بارے میں کیا لکھوں۔
البتہ ایک صاحب نے کراچی سے مجھے للکارا ہے کہ میں خوابِ غفلت میں پڑا ہوا ہوں۔ قوم کو سدھارنے کی کوشش کروں۔

آپ کا فرمانا بجا کہ میرے ہاتھ میں قلم ہے۔ لیکن قوم اس قلم سے صرف کہانیوں کا نزول چاہتی ہے۔ اگر کبھی ایک آدھ جملہ کسی مثال کے طور پر بھی قلم سے رپٹ گیا تو قوم جھپٹ پڑتی ہے :
" آخر آپ کو سیاست میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے؟ "
اور میں ہکا بکا رہ جاتا ہوں کہ قوم کو کیا جواب دوں۔ کیونکہ جواب دینے کے سلسلے میں ایک ضخیم کتاب لکھنی پڑ جائے گی۔
پہلے تو قوم کو یہ بتانا پڑے گا کہ سیاست ہے کیا چیز ، پھر عرض کرنا پڑے گا کہ میرے اس حقیر جملے کو اس کسوٹی پر پرکھئے۔ اگر اس میں ذرہ برابر بھی سیاست پائی جاتی ہو تو جو لیڈر کی سزا وہ میری سزا ۔۔۔۔

اور پھر بھائی اگر ملک میں سیاستدانوں کی کمی پائی جاتی ہو تو تھوڑا بہت کشٹ بھی اٹھا لیا جائے۔ مجھے تو بس کہانیاں لکھنے دیجئے۔ میری لیڈری آپ بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پھر خواہ مخواہ قوم کا وقت برباد کرنے سے کیا فائدہ۔
قوم کے لئے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتا کہ دعا کروں۔
"اے اللہ ! اس قوم کو ایک آزاد اور منفرد قوم کی حیثیت سے ہمیشہ قائم رکھیو۔"

آخر میں ان صاحب نے پوچھا ہے کہ :
"لیڈر کی صحیح تعریف کیا ہے؟"
بڑا بےڈھب سوال کیا ہے آپ نے۔ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ البتہ اکبر الہ آبادی نے اپنے زمانے کے لیڈر کی تعریف یوں کی ہے :

یوسف کو نہ دیکھا کہ حسیں بھی ہے جواں بھی
شاید نرے لیڈر تھے زلیخا کے میاں بھی

2009/06/26

ستارہ جو غروب ہو گیا

ستارہ جو غروب ہو گیا
۔ ۔ ۔ روشنی جو باقی رہے گی
۔۔۔ پروفیسر مجاور حسین رضوی

ایک اک کر کے ستاروں کی طرح ٹوٹ گئے
ہائے کیا لوگ مرے حلقہ ء احباب میں تھے

ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ماہ وسال کی گردشیں تھم گئی ہیں ۔ ماضی نے اپنے چہرے سے نقاب الٹ دی ہے اور یادوں کا کارواں آج سے ٹھیک 33 سال پہلے اگسٹ 1947ء پر آ کر ٹھہر گیا ہے۔
الہ آباد یونیورسٹی کے بی اے سال اول کے درجہ میں ڈاکٹر حفیظ سید اردو پڑھا رہے تھے۔ میں اگلی نشستوں پر بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ میں چھڑی تھی۔ اس پر بائیں ہاتھ کو سہارا دئیے ہوئے وہ ٹھہر ٹھہر کر بولتے تھے۔ ان کے سر پر چاروں طرف حاشیہ کی طرح بالوں کے گچھے رہتے تھے۔ درمیانی حصہ بالکل صاف تھا۔ پیچھے گردن پر بال بے ترتیبی سے پڑے رہتے تھے جوش تقریر میں کبھی کبھی چھڑی اٹھا کر ہوا میں لہراتے تھے ۔
اچانک مرے پاس بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے ٹھوکر دے کر کہا:
’’ذرا دیکھئے۔ ہمارے ’سر‘ کے پیچھے داڑھی ہے‘‘
جملہ اتنے زور سے کہا گیا تھا کہ میں تو چونکا ہی، کلاس میں بھی قہقہے گونجنے لگے۔

ڈاکٹر صاحب نے جب باز پرس کی تو بڑی معصومیت سے اس طالب علم نے کہا۔ ’’میں نے اپنے لئے یہ بات کہی تھی‘‘ ۔
بعد میں معلوم ہوا کہ ان صاحب کا نام اسرار احمد ہے اور میرے محلے ہی میں رہتے ہیں ۔ اس روز کے بعد سے نسبتاً بے تکلفی بڑھی۔ بہت خوش گلو تھے اس لئے اکثر احباب کی محفل میں ان سے جذبی، مجاز اور اقبال کی غزلیں ترنم سے سنی جایا کرتی تھیں ۔ جنوری 48ء میں گاندھی جی کا حادثہ ہوا۔
میں اس زمانے میں الہ آباد کے ایک سہ روزہ اخبار ’’نیا دور‘‘ میں سب ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ اس کا ’’گاندھی نمبر‘‘ نکلنا تھا۔ صبح صبح دفتر جا رہا تھا۔ اسرار صاحب نے راستے میں مل کر ایک نظم دی اور بغیر پڑھے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اسے شائع نہیں کرنا ہے۔ اسے ردی کی ٹوکری میں ڈالنے سے پہلے یوں ہی سرسری طور پر نظر ڈالی تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ نظم کتابت کے لئے دے دی۔ لیکن شام کو ان سے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ’’اسرار صاحب وہ نظم اشاعت کے لئے دے دی گئی۔‘‘
کہنے لگے ’’شکریہ‘‘ ۔
میں نے کہا ’’سمجھ لیجئے جس کی نظم ہوگی وہ مجھے اور آپ کو قبر تک نہ چھوڑے گا‘‘
بولے ’’کیا مطلب ۔ ؟ ‘‘ تیوریاں چڑھ گئیں ۔
میں نے کہا ’’مطلب یہ کہ کیا وہ آپ ہی کی ہے؟‘‘
بولے ’’پھر کس کی ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’چرائی ہے‘‘
بولے ’’ ثابت کر دیجئے تو پانچ روپیے حاضر کروں گا۔‘‘
میں نے ایک شعر سناکر کہا ’’یہ تو آپ کا نہیں ہے۔ یہ تو جوش یا فراق کا معلوم ہوتا ہے‘‘۔
بولے ’’دکھا دیجئے۔ شاعری ترک کر دوں گا‘‘۔
وہ شعر یہ تھا۔
لویں اداس، چراغوں پہ سوگ طاری ہے
یہ رات آج کی انسانیت پہ بھاری ہے

مگر میں جوش یا فراق یا کسی اور کے دیوان میں یہ شعر کہاں سے دکھاتا۔ اب ان کی حیثیت ہمارے حلقے میں اک شاعر کی تھی، ایسا شاعر جو فراق، سلام مچھلی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سناتا تھا اور لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ اس زمانے میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سولہ برس کے تھے تو 42ء میں ایک نظم لکھی تھی ۔
للہ نہ روکو جانے دو ۔
مجھے یہ نظم زبانی یاد تھی مگر سمجھتا تھا کہ شمیم کرہانی کی ہے۔
وہ نظم بھی اشاعت کے لئے دے دی گئی۔ مگر کسی نے بھی دعویٰ نہ کیا اور اسرار صاحب ہی اس نظم کے خالق قرار پائے۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہ ایسے موضوعات منتخب کرتے تھے جن پر کسی نے قلم نہیں اٹھایا تھا۔
’مرگھٹ کا پیپل‘ ،
’بانسری کی آواز‘ ،
’سنگتراش نے کہا ‘،
’خوف کا میخانہ‘
وغیرہ۔
اس زمانے کے دو تین شعر یاد آ گئے۔

دکھائی دی تھی جہاں پر گناہ کی منزل
وہیں ہوئی تھی دل ناصبور کی تکمیل

بس اتنا یاد ہے اسرار وقت مئے نوشی
کسی کی یاد بھی آئی تھی دل کو سمجھانے

جو کہہ سکے وہی ٹھیرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی

شاعر کی حیثیت سے تیغ الہ آبادی (مصطفےٰ زیدی ) اور راہی معصوم رضا دونوں ہی ان کے معترف تھے۔
اسی زمانے میں ماہنامہ ’نکہت‘ کا آغاز ہوا تھا۔ صبح سے شام تک بڑی دلچسپ صحبتیں رہتی تھیں ۔ جس میں حسین حیدر صاحب مرحوم کی حیثیت صدر نشین کی ہوا کرتی تھی۔ حالانکہ وہ ہم سب کے بزرگ تھے اور برادر محترم عباس حسینی صاحب کے والد۔ مگر ہم سب لوگوں کے ادبی مشاغل میں بڑے انہماک و دلچسپی سے شامل ہوتے تھے۔
اسرار صاحب نے ’ٹماٹر ازم‘ کے عنوان سے ایک طنزیہ سنایا۔ بہت پسند کیا گیا اور ’’طغرل فرغان‘‘ نام تجویز ہوا۔
پھر نکہت میں وہ ’طغرل فرغان‘ اور ’’عقرب بہارستانی‘‘ کے نام سے طنزیہ مضامین بھی لکھنے لگے۔
الہ آباد سے ایک روزنامہ ’نوائے ہند‘ نکلتا تھا۔ اس میں بھی ’’طغرل فرغان‘‘ کے نام سے مزاحیہ کالم لکھا کرتے تھے۔ طنز و مزاح لکھنے والوں میں ابراہیم جلیس کے بہت مداح تھے اور شفیق الرحمان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔
کہتے تھے ’’لیکاک کی مسلّم فنٹیسی پر ہاتھ صاف کر دیتا ہے۔‘‘
اب شاعری پس پشت چلی گئی۔ اسرار احمد جو نارہ ضلع الہ آباد کے رہنے والے تھے اور اس لحاظ سے اپنے کو اسرار ناروی لکھا کرتے تھے، طغرل فرغان ہو گئے۔
’نکہت‘ اور ’نوائے ہند‘ کو ملا کر سو کے لگ بھگ طنزیہ مضامین لکھے 51ء تک یہی کیفیت رہی۔
ایک روز انہوں نے ایک کہانی سنائی جسے سن کر بہت غصہ آیا اس لئے کہ وہ بہت فحش تھی۔ سناتے جاتے تھے اور غصہ بڑھتا جاتا تھا۔ لیکن کہانی کے اختتام نے منھ پیٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس لئے کہ کہانی کا مرکزی کردار جسے ہم سب عورت سمجھ رہے تھے وہ ایک پالتو بلی ثابت ہوئی۔
ذہن میں ایک خیال آیا اور سکسٹن بلیک کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہنامے کا منصوبہ تیار ہونے لگا۔ اس منصوبہ بندی میں بھیا (عباس حسینی)، جمال صاحب (شکیل جمالی) راہی (معصوم رضا) اور حسن حیدر صاحب بھی شامل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ راہی بہت اچھی جاسوسی کہانیاں لکھ سکتے ہیں ۔ اس لئے کہ ہم لوگوں کے مقابلے میں وہ گارڈنر، پیٹر شینے، ایڈگرویلس، اگاتھا کر سٹی وغیرہ کو بہت زیادہ پڑھا کرتے تھے۔ بڑی برق رفتاری کے ساتھ پڑھتے تھے اور لکھتے بھی تھے۔ لیکن راہی کو نظر انداز کر کے میں نے وکٹر گن کا ایک ناول منتخب کیا کہ اسی کو بنیاد بناکر ایک کہانی لکھی جائے۔
یہ کام اسرار احمد کے سپرد ہوا۔
انہوں نے ایک ہفتہ میں ناول مکمل کرکے حوالے کردیا اور اسے پڑھنے کے بعد راہی نے بھی جاسوسی ناول لکھنے کا خیال ترک کردیا۔
جنوری 53ء میں ناول نگار کا نام ابن صفی منتخب ہوا کہ اسرار صاحب کے والد کا نام صفی اللہ تھا اور اسی مہینہ میں جاسوسی دنیا کے پہلے شمارہ کی حیثیت سے یہ ناول شائع ہوا۔
اس ناول کا نام تھا۔ ’’دلیر مجرم‘‘-
جس میں پہلی بار انسپکٹر فریدی اور سرجنٹ حمید روشناس کرائے گئے تھے۔
ایک ناول اور جو ’’پہاڑوں کی ملکہ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا، رائیڈر ہیگرڈ کے ناول ’’کنگ سالون مانےئر‘‘ سے مستعار تھا۔
اس کے علاوہ انہوں نے تقریباً ڈھائی سو ناول لکھے۔ جو ان کے طبع زاو ناول تھے۔
ان ناولوں کی مقبولیت کے بارے میں کچھ لکھنا عبث ہے۔ صرف اتنا ہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ ان کی فروخت اردو اور ہندی کے کسی ناول نگار کے ناولوں کے مقابلے میں بلاخوف تردید سب سے زیادہ تھی اور اس کا راز ان کا منفرد طرز تحریر تھا۔
تجسس اور پراسرار واقعات سے بھرپور کہانیوں میں طنز کی شگفتگی اور مزاح کی چاشنی ایک سحرکارانہ کیفیت پیدا کردیتی تھی۔ کسی بھی زبان میں لکھے گئے جاسوسی ناول پڑھئیے، یہ انداز تحریر نہیں ملے گا اور پھر ان سب پر مستزاد ایک باوزن باوقار دلکش زبان، واقعات میں نصیحت کا کہیں شائبہ نہیں ۔ نہ جانے کتنے لوگوں نے ان کے ناولوں کے ذریعہ اردو سیکھی، اردو پڑھنے کا ذوق حاصل کیا۔
ہندی میں ان کے ناولوں کا ترجمہ شائع ہوتا تھا۔ ابھی تقریباً ستر پچھتر ناول ایسے ہیں جو ہندی میں شائع نہیں ہوئے۔
وہ ہندی میں بھی اتنے ہی مقبول تھے جتنے اردو میں ،البتہ ہندی میں ان کے دو کرداروں کے صرف نام بدلے ہوئے تھے۔ یعنی فریدی کی جگہ ونود اور عمران کی جگہ راجیش۔
حمید اور قاسم اپنے اصلی ناموں کے ساتھ ہی ہندی میں بھی ملتے ہیں ۔ یوں تو طلسم ہو شربا کی طرح انہوں نے بے شمار کردار خلق کئے اور وہ سب اپنے محدود دائرے میں ذہن پر دیر پا اثرات چھوڑتے ہیں ۔
لیکن حمید ان کا ایسا شاہکار کردار ہے جو فسانہ آزاد کے خوجی اور طلسم ہوشربا کے عمر عیار کی طرح ادب میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
یہ درست نہیں کہ ادبی حلقوں نے انہیں نظرانداز کیا۔
اردو میں آزادی کے بعد لکھے جانے والے ناولوں کے دور پر بہت کم لکھا گیا ہے پھر بھی ڈاکٹر اعجاز حسین نے ’’اردو ادب آزادی کے بعد‘‘ اور ڈاکٹر علی حیدر نے ’’اردو ناول سمت و رفتار‘‘ میں ان کا ذکر کیا ہے۔
پاکستان سے بیشتر نکلنے والے ناول نمبر یا ناولوں کے جائزے ان کے تذکرے سے خالی نہیں ہیں ۔
ان کی ادبی حیثیت اپنے منفرد اسلوب اور اپنی کردار نگاری کی بناء پر مسلم ہے ۔
اگر انگریزی ادب کانن ڈائل اور اگا تھا کرسٹی کو ادب عالیہ کی کرسی عطا کرسکتا ہے تو اردو میں یہ جگہ صرف ابن صفی کے لئے مخصوص ہے۔
یوں تو ان کا ہر ناول بہت مشہور ہوا لیکن ان میں کچھ ایسے ہیں جو ہر جہت سے اس طرز کے بہت اچھے ناولوں کی صف میں عالمی ادب میں جگہ پانے کے مستحق ہیں ۔
ان میں ۔۔۔۔۔۔
دشمنوں کا شہر، لاشوں کا آبشار، خوفناک ہنگامہ، شعلوں کا تاچ، پتھر کی چیخ، سائے کی لاش وغیرہ
بہت اہم اوراچھے موضوعاتی ناول ہیں ۔
یہ درست ہے کہ ان کے یہاں واقعات کی رفتار پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ پورے منظر، پس منظر و پیش منظر کی تصویرکشی پر نہیں ۔ لیکن ان کا شاعرانہ مزاج ان کا طنزسے بھرا ہوا نکیلا قلم کہیں کہیں عصری حسیت کو بھی اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ ان پر بہت کچھ لکھنے کی گنجائش ہے اور اگر موقع ملا تو ادارہ جاسوسی دنیا کی طرف سے شائع ہونے والے ابن صفی نمبر میں ان پر تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی جائے گی۔

اسرار صاحب نارہ کے رہنے والے تھے اور کائستھ نژاد مسلم تھے اور بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ تم لوگ اتفاقی مسلمان ہو۔ ہم لوگ اختیاری مسلمان ہیں ۔ ہمارے آباد اجداد نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا۔ ان کی والدہ دیوبندی عقائد رکھتی تھیں اور والد بریلوی مسلک کے ماننے والے تھے اور ان کے حلقۂ احباب میں زیادہ تر اثنائے عشری۔
لیکن وہ بذات خود صرف مسلمان تھے۔
اور ان کی یہ خصوصیت ایسی تھی جس کی بناء پر ہر شخص بلالحاظ عقیدہ ان کی عزت کرنے پر مجبور تھا۔ محلے میں ان کی حیثیت ’’امین‘‘ کی تھی ۔ لوگ اپنی امانتیں رکھاتے تھے اور پھر لے جاتے تھے۔
ایک بار ایک صاحب نے ایک چھوٹا سا صندوقچہ رکھا۔ میرے سامنے ہی واپس لینے آئے۔ اس پر گرد جمی ہوئی تھی۔اسی عالم میں ان کا صندوقچہ انہیں واپس ملا۔
میں نے کہا ’’گرد تو صاف کردی ہوتی‘‘
بولے ’’غور ہی نہیں کیا۔ اور پھر ایک ذرہ بھی اگر کم ہو تو وہ امانت میں خیانت ہے‘‘۔

الہ آباد میں وہ مجیدیہ اسلامیہ کالج اور یادگار حسینی ہائر سکنڈری اسکول (جو اب کالج ہے) میں مدرس تھے اور بہت کامیاب۔ ان کے شاگردوں میں اجمل اجملی بہت مشہور ہوئے۔ الہ آباد میں پانچ سال ان کا ساتھ رہا۔ ان کے والد صاحب پاکستان ہی میں تقسیم سے قبل سے ملازم تھے۔
اسرار اگسٹ 52ء میں اپنی والدہ اور اپنی ہمشیرہ کے ہمراہ کراچی چلے گئے۔ الہ آباد کے دوران قیام ہی ایک شادی ہوئی لیکن سال بھر بعد ہی ان کی اہلیہ کا انتقال ہوگیا۔ ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
52ء سے 60ء تک ہم لوگ ایک دوسرے سے دور رہے۔ صرف خط و کتابت ہی کا سہارا تھا۔ ہر ہفتہ انتہائی پابندی سے خط موصول ہوتا تھا۔ خط اتنے دلچسپ ہوا کرتے تھے کہ پڑھنے میں ناول کا مزہ آتا تھا۔
میں 60ء میں پاکستان گیا۔ میرے سامنے ہی وہ بیمار ہوئے اور یہ سلسلہ 63ء تک چلا۔ 61ء میں پھر میں پاکستان گیا اور ان سے ملا تھا۔ پچھلے 19 سال سے انہیں نہیں دیکھا۔
مگر ایک لمحہ کے لئے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا تھا کہ ہم دونوں کے درمیان کوئی فاصلہ ہے۔ وہ وسیع حلقہ احباب کے قائل نہ تھے اور بے تکلفی کی حد تک بھیا ،جمال صاحب، راقم الحروف اور راہی کے علاوہ کوئی بھی ان کا ’’یار‘‘ نہ تھا۔
عام لوگوں کی نظر میں وہ بہت خاموش آدمی تھے۔ بلاضرورت بات نہیں کرتے تھے اور دیکھنے والا بڑا معمولی تاثر لے کر اٹھتا تھا۔ ان کی شخصیت ملنے والے کو کشمکش میں مبتلا کردیتی تھی۔ سانولا رنگ، کشادہ پیشانی، روشن چمکتی ہوئی آنکھیں ،ابھرے ہوئے ہونٹ، بیضاوی چہرہ، لیکن وہ اپنے کردار عمران کی طرح اپنے چہرے پر حماقت طاری کرلیا کرتے تھے اور جب ملنے والا چلا جایا کرتا تھا تو یہ سوچ کر مزہ لیا کرتے تھے کہ ان کے بارے میں کیا رائے قائم کی ہو گی۔
لیکن اپنے بے تکلف احباب کے لئے وہ زندگی کا ایک ناگزیر جزو بن کر رہ گئے تھے۔
24 گھنٹوں میں بلامبالغہ 12 گھنٹے ساتھ ہی گذرتے تھے۔ میرے پاس نومبر79ء تک ان کے خطوط آتے رہے ۔
ان کی علالت کی خبر سن کر بھیا نے اپنے چھوٹے بھائی جمال صاحب کو کراچی ان کی عیادت کے لئے بھیجا تھا۔ اس لئے کہ وہ خود ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق لمبا سفر نہیں کرسکتے تھے۔ اپریل میں جمال صاحب ان کے ہاں ایک مہینہ رہ کر واپس ہوئے اور اسرار صاحب کے ساتھ گذارے ہوئے خوشگوار دنوں کی کہانی مئی جون تک میں روزآنہ ان سے سنتا رہا، تصویریں دیکھتا رہا۔ اس خبر سے بڑا اطمینان ہوا کہ وہ اب روبہ صحت ہیں ۔ میرا پورا خاندان پاکستان میں ہے۔ ان لوگوں نے جولائی میں مجھے یہ اطلاع دی کہ اسرار بھائی اب پھر ناول لکھ رہے ہیں ۔ مگر انہیں اب بھی خون چڑھایا جاتا ہے۔ میں نے بہت سخت خط لکھا ۔اس لئے کہ اتنے عرصے سے خون کا چڑھایا جانا کوئی اچھی علامت نہ تھی اور اس پر سے کام کا جاری رہنا۔ میرے خط کا جواب نہیں آیا۔
پہلی اگسٹ کو ایک شاگرد نے بتایا کہ اخبار میں ابن صفی کے انتقال کی خبر چھپی ہے۔
الہ آباد اور کراچی سے تصدیق کرائی۔
دل چاہتا تھا کہ خبر غلط ہو۔ مگر دل دھڑکتا بھی تھا۔
چھ تاریخ کو دونوں جگہ سے خبر کی تصدیق ہوگئی۔
25۔ جولائی کو انتقال ہوا۔ 26۔ کو دفن کئے گئے۔
مرنے سے دو روز پہلے مجھے خط لکھا تھا۔ کیا لکھا ہوگا۔ خدا جانے۔ مجھے آج تک وہ خط نہیں ملا۔

1960ء میں جب وہ پہلی بار بیمار پڑے تھے تو ڈاکٹروں کی دوا سے کوئی فائدہ نہ ہوا تھا۔ حکیم اقبال حسین کے علاج سے صحت یاب ہوئے۔ عارضہ جگر کی خرابی کا تھا۔ پھر 16 سال بعد بیمار ہوئے ، وہی دیرینہ بیماری اور کچھ برس پہلے ماں کی موت کا صدمہ، اپنی طرف سے لاپرواہی ، سارے زمانے کی فکر۔ حکیم اقبال حسین بھی نہیں تھے جو مرض کو سمجھ سکتے۔ اب معلوم ہوا کہ بلڈ کینسر تھا۔

کراچی پہونچ کر ایک شادی کی جن سے 4 لڑکے اور 4 لڑکیاں ہیں ۔ پھر عقدثانی بھی کیا لیکن ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بڑی لڑکی کی شادی ہوچکی ہے۔ ایک لڑکا اٹلی میں زیرتعلیم تھا۔ یقینا اس وقت جب انہوں نے آخری بار اس دنیا پرنظر ڈالی ہوگی تو یہ سب رہے ہوں گے۔
مجھے یقین ہے کہ ان کی نگاہوں نے بھیا، ننھے، مجن کو ضرور تلاش کیا ہوگا اور آج ان تینوں کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے نمناک ہوچکی ہیں ۔ ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جب وہ قہقہہ لگاتا ہوا، سرگوشیاں کرتا ہو، نظمیں سناتا ہوا، کہانیاں لکھتا ہوا، نظروں کے سامنے بیٹھا ہوا دکھائی نہ دیتا ہو۔ میں 17۔اگسٹ سے تادم تحریر بیمار رہا لیکن بیمار نہ بھی ہوتا تو شائد اس پر کچھ لکھ نہ پاتا۔

ایسا لگتا ہے جیسے وہ اس دنیا سے نہیں گیا، ہم سب کے قلم بھی ساتھ لیتا گیا، ہونٹوں پر بکھیرنے والی مسکراہٹ بھی لیتا گیا اور پلکوں پر لرزنے والا ستارہ دے گیا۔

***
بشکریہ : سمت (جلد:13)

ایک نظم : التجا

التجا
بحضور سرورِ کائینات (صلی اللہ علیہ وسلم)

میرے آقا ! میں کس منہ سے در پر ترے حاضری دوں
میرے ماتھے پہ اب تک نشانِ عبادت نہیں
ایک بھی نیک عادت نہیں
میری جھولی گناہوں سے پُر ہے
میرے ہاتھوں کی آلودگی باعثِ شرم و غیرت بنی
میرے آقا ! میں کس منہ سے در پر ترے حاضری دوں؟
پھر بھی آقا مرے ! پھر بھی مولا مرے !
تیرے در کے سوا اور جاؤں کہاں
ہو اجازت مجھے حاضری کی عطا
میرے آقا ! میں نادم ہوں اپنی بد عادات پر

ابن صفی کا مذہبی نظریہ

سوال :
آپ کس ازم کے قائل ہیں ؟
جواب :
قریب قریب سارے ہی ماڈرن ازم میرے مطالعے میں آ چکے ہیں لیکن میں قائل کسی کا بھی نہیں۔
میں تو اللہ کی ڈکٹیٹرشپ کا قائل ہوں۔ اس میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی کہ جب جتنے پیگ کا نشہ ہو ویسا ہی بیان داغ دیا۔
آپ بھی کسی ازم وزم کے بجائے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ اسلام کے سوا سارے ازم محض وقتی حالات کی پیداوار ہیں۔ اور کسی ایک ازم کی کوئی دشواری کسی زمانے میں دوسرے ازم کی پیدائش کا باعث بنتی ہے۔ جبکہ اسلامی نظام آج بھی قابل عمل ہے۔

سوال :
لیکن دیکھئے نا ! اب دوبارہ نہ تو ڈاڑھیاں رکھی جا سکتی ہیں ، نہ بیل باٹم چھوڑا جا سکتا ہے۔ پھر وہ خواتین جو اپنا پردہ مَردوں کی عقل پر ڈال چکی ہیں دوبارہ اس کو کیسے اپنائیں گی؟
جواب :
صاحب ! کیا رکھا ہے ان باتوں میں۔ آپ کا ظاہر کچھ بھی ہو، لیکن دل مسلمان ہونا چاہئے۔ کچھ نیکیاں سچے دل سے اپنا کر دیکھئے۔ آہستہ آہستہ آپ خود کسی جبر و کراہ لے بغیر اپنا ظاہر بھی اللہ کے احکامات کے مطابق بنا لیں گے۔
بس جیسے ہی آپ انفرادی طور پر اللہ کے احکامات کے آگے جھکے یہ سمجھ لیجئے کہ ایک ایسا یونٹ بن گیا ، جس پر اللہ کی ڈکٹیٹرشپ قائم ہے۔ انفرادی طور پر اپنی حالت سدھارتے چلے جائیے ، پھر دیکھئے کتنی جلدی ایک ایسا معاشرہ بن جاتا ہے جس پر اللہ کی حاکمیت ہو۔
قرآن کو پڑھئے ، اس پر عمل کیجئے ، اسے علم الکلام کا اکھاڑہ نہ بنائیے۔

2009/06/21

نقلی فریدی سیریز

اگر آپ نے ایچ۔اقبال یا این صفی کی جاسوسی دنیا پڑھی ہے تو ان لوگوں کی تخلیق کردہ کرنل فریدی سیریز کا اندازِ تحریر آپ کے لیے نیا نہیں ہوگا۔ لیجئے ایسا ہی ایک نمونہ یہاں ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

******

سرخ رنگ کی اس عمارت کے باہر بہت زیادہ رش تھا۔ کاریں پارک کرنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ باہر پولیس کی ایک لاری اور بہت سی پولیس کاریں نظر آ رہی تھیں۔ اندر کوٹھی کے ایک کمرے میں ڈی۔آئی۔جی اور آئی۔جی سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ کمرے کے فرش کے عین سنٹر میں دو لاشیں پڑی تھیں ، ایک کا سر غائب تھا اور دوسرے کے پاؤں۔
"میری سمجھ میں نہیں آتا ، آخر سر کہاں گیا؟" ڈی۔آئی۔جی نے کہا۔
"آپ کو سر کی پڑی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ پاؤں کاٹ کر کسی کو کیا ملا؟"
"کون سر لے گیا؟"
"خاموش رہئے۔ پاؤں کی تلاش زیادہ ضروری ہے۔"
"سر سر سر ۔۔۔۔"
"سر کے بچے ، میں تمہارا سر توڑ دوں گا"

قریب تھا کہ دونوں پولیس آفیسر ایک دوسرے پر پل پڑتے کہ باہر سے فائر کی آواز آئی اور کھڑکی کا شیشہ چھن سے ٹوٹ کر گرا۔
ایک نقاب پوش جو چھپ کر ڈی۔آئی۔جی اور آئی۔جی کی باتیں سن رہا تھا، کرسی کے پیچھے سے اچھل کر بھاگا۔ اس کے پیچھے ایک اور نقاب پوش تھا۔ اس نے پہلے نقاب پوش کو ٹانگ پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ دونوں ایک دوسرے سے گتھے ہوئے زمین پر آ گرے ، دیکھنے والوں نے محسوس کیا کہ پہلے نقاب پوش کی گرفت ڈھیلی ہوئی جا رہی ہے ، دوسرے نے اس کا سر زمین پر مار کر اسے بےہوش کر دیا اور اس کے چہرے سے نقاب اُتر گئی۔
آئی۔جی کے حلق سے تحیر آمیز آواز نکلی : "ارے ، یہ تو پارٹی کا ایک لیڈر ہے!"
"جی ہاں۔ دوسرے نقاب پوش نے اپنے چہرے سے نقاب اُتارتے ہوئے کہا ، وہ فریدی تھا۔

"لیکن یہ سر اور پاؤں غائب ہونے میں کیا راز ہے؟" آئی۔جی نے پوچھا۔
"آپ نے وہ نظم نہیں سنی؟
ایک تھا تیتر ، ایک بٹیر
لڑنے میں تھے دونوں شیر
لڑتے لڑتے ہو گئے گم
ایک کی چونچ اور ایک کی دُم!
یہ دو لاشیں اس نظم کی تکمیل ہیں !"
"لیکن کسی کو کیا پڑی تھی یہ کرنے کی؟"
"یہ ایک بہت بڑا راز ہے ، جس پر سے ان شاءاللہ پھر کبھی پردہ اٹھاؤں گا۔"
یہ کہہ کر کرنل فریدی کمرے سے ہوا کے دوش پر اُڑتا ہوا نکل گیا۔

نقلی عمران سیریز

اردو کے مشہور ، مقبول و معروف جاسوسی ادیب ابن صفی جہاں فانی سے کوچ کر چکے ہیں۔
یوں تو ان کی زندگی میں ہی ان کی تحریروں کے بہت سے نقال پیدا ہو گئے تھے۔
لیکن اب بعد وفات چونکہ یہ خلا پُر کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے لہذا ظاہر ہے نقال حضرات کی کوششیں خاصا زور پکڑ گئی ہیں۔

ذیل میں ہم اس تحریر کا ایک نمونہ پیش کر رہے ہیں جو اب عمران سیریز کے نام پر پڑھنے کو ملیں گی۔
اگر مستقبل کے مصنف کو عمران کی شادی رچانے کا اچھوتا خیال سوجھ گیا عمران سیریز کا مستقبل وہ ہوگا جو ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمران نے اپنی منی بس چورنگی کے فٹ پاتھ کے ساتھ پارک کر دی اور ادھر ادھر دیکھ کر بڑی احتیاط سے دکان میں داخل ہو گیا۔ اس کی آنکھوں پہ تاریک شیشوں کی عینک تھی اور چہرے پر ریڈی میڈ میک اپ !
اس نے کاؤنٹر کے پاس پہنچ کر سیلزمین کو ایک خفیہ اشارہ کیا۔۔
سیلز مین نے سر ہلایا اور کاؤنٹر کے پیچھے کا دروازہ کھول کر اندر غائب ہو گیا۔ پانچ منٹ بعد واپس ہوئی تو اس کے ہاتھ میں ایک سربمہر پیکٹ تھا جو اس نے عمران کے حوالے کر دیا۔
عمران جس رازداری سے داخل ہوا تھا ویسے ہی رازداری سے باہر نکل آیا اور پھرتی سے منی بس میں بیٹھ کر بس اسٹارٹ کر دی۔
عقبی شیشے میں دیکھا تو تھوڑے فاصلہ پر کھڑے ایک موٹر سائیکل پر تعاقب کا شبہ ہوا۔ وہ یہ اندازہ لگانے کے لئے کہ تعاقب ہو رہا ہے یا نہیں بس کو چھوٹی چھوٹی سڑکوں پر بلامقصد موڑنے لگا۔ آخرکار ایک گلی میں وہ موٹرسائیکل والے کو ڈاج دینے میں کامیاب ہو گیا۔
اپنے فلیٹ میں پہنچ کر اس نے پھرتی سے دروازہ بند کر کے اندر سے کنڈی چڑھا دی اور صوفے پر گر کر گہری گہری سانسیں لینے لگا۔

اندر والے کمرے سے آواز آئی :
" لے آئے آپ منے کے لئے امپورٹیڈ مدر کئیر کے پیمپرز ؟"

پیش رس :: گیارہ نومبر

"گیارہ نومبر" حاضر ہے۔
اس نام سے متعلق مجھے کئی خطوط بھی موصول ہوئے ہیں اور لوگوں سے زبانی بحثیں بھی ہوئی ہیں۔
ایک صاحبہ نے کہا : نام سے قطعی نہیں معلوم ہوتا کہ یہ کوئی جاسوسی ناول ہے۔
میں نے کہا : ناموں سے کچھ نہیں ہوتا مثلاً آپ کے نصف بہتر "عاقل فہیم" کہلاتے ہیں ، لیکن صورت سے بلکل چغد معلوم ہوتے ہیں اور آپ سینکڑوں بار مجھ سے ہی ان کی بد عقلی کا رونا رو چکی ہیں۔
اس پر وہ بھڑک اٹھیں۔
میں نے عرض کیا : لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ جتنا وہ کماتے ہیں اس کے پچھتر فیصد کی آپ کو ہوا بھی نہیں لگنے دیتے اور احباب میں آپ کی فضول خرچیوں کا رونا روتے پھرتے ہیں۔

بہر حال آپ کہانی پڑھیں اور خود ہی فیصلہ کریں کہ یہی مناسب تھا یا نہیں۔
اب آئیے بے چارے مصنف کی طرف کہ اسے بہت دنوں کے بعد پھر وہی پرانا مرض لاحق ہو گیا ہے۔
لیکن اس بار بنگلہ بھاشا میں ہو اہے۔ یعنی مشرقی پاکستان کے دو پبلشروں نے میرے کچھ ناولوں کا بنگلہ ترجمہ چھاپا ہے اور اس پر میرے نام کی بجائے "مراد پاشا" اور "آلک باری" رسید کردیا ہے۔
یعنی اردو میں تو صرف چوریاں ہی ہوتی تھیں ،لیکن بنگلہ میں تو ڈاکہ پڑا ہے مجھ پر۔
آلک باری صاحب نے عمران سیریز کے "بھیانک آدمی" کو ذبح کیا ہے اور مراد پاشا نے شعلوں کے پورے سیٹ پر دھاوا بولا دیا ہے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر یہی غریب کیوں ایسوں کے ہتھے چڑھتا ہے (اسے صنعت تجاہل عارفانہ کہتے ہیں۔)
ان پبلشروں کے خلاف قانونی کاروائی کی جا رہی ہے اور ان شاء اللہ انھیں کراچی ہی کی عدالت میں حاضر ہونا پڑے گا۔

سنا ہے کراچی میں کوئی گجراتی اخبار عمران سیریز کا کوئی ناول نہ صرف چھاپ رہا ہے بلکہ کرداروں کی ایسی قلمی تصاویر بھی وہ اخبار میں چھاپ رہا ہے، جنھیں دیکھ کر بعض "عمران پسند" آپے سے باہر ہو گئے ہیں !
قلمی تصاویر بھی وہ اخبار چھاپ رہا ہے اور صلواتیں مجھے سننی پڑ رہی ہیں۔ یہ دوسرا مرض ہے جو مجھے ہی لاحق ہواہے۔ اب آپ مجھے مشورہ دیجئے کہ عدالتی کاروائی مناسب رہے گی یا گنڈے تعویز کروں!
خرچ دونو ں میں ہوتا ہے، لہذا آپ خرچ کی پروا نہ کریں مجھے اپنے مفید مشوروں سے مالامال فرما ئیں۔
ورنہ آپ جانتے ہیں کہ میرے کرداروں پر ناول لکھنے والوں کی تعداد اب گنڈے تعویز کی دسترس سے بھی نکل کر ٹائیفون اور ڈی۔ڈی ۔ٹی کی حدود میں داخل ہوگئی ہے۔

2009/06/20

یک سطری جواہر پارے - (1)

- بعض اوقات قیاس بھی حقیقت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

- کوئی بھی فن معصومیت اور پاکیزگی کے بغیر پروان نہیں چڑھ سکتا۔

- خدا جاہل والدین سے بچائے۔

- یہ زندگی الفاظ ہی کا تو کھیل ہے۔

- میں اُن مجرموں کو احمق سمجھتا ہوں ، جو پولیس کو مرعوب کرنے کی کوشش کریں۔

- ہر آدمی اپنے ماحول سے اکتایا ہوا ہے۔

- زندہ رہنے کے لیے سب کچھ گوارا کرنا پڑتا ہے۔

- آدمیت کی معراج صرف بانٹ‌ کر کھانے میں مضمر ہے۔

- اصل چیز محنت ہے ، دولت نہیں۔

- جو بھی اپنی حدود سے تجاوز کرے گا دشواری میں‌ ضرور پڑے گا۔

- اپنی پسند کے لوگ تلاش کیے جاتے ہیں یونہی نہیں‌ مل جایا کرتے۔

- اگر سب عقل مند ہو جائیں تو زندگی ریگستان بن کر رہ جائے گی۔

- فنکاروں‌کے یہاں‌ تکلفات کو دخل نہ ہونا چاہئے۔

- میں‌ خود کو بےبس سمجھنے کا عادی نہیں‌ ہوں۔

- عالی ظرف لوگ کبھی احسان نہیں جتاتے ، بلکہ زبان پر بھی نہیں لاتے۔

- آدمی کتنا گر سکتا ہے اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔

- تمہیں زیادہ سے زیادہ وقت کسی کام پر صرف کرنا چاہئے۔

- دنیا کی ہر عورت بحیثیت بیوی کریک ہوتی ہے۔

- شادی شائد اس چڑیا کو کہتے ہیں جو رات کو بولتی ہے اور دن کو کہیں نہیں دکھائی دیتی۔

- عورتوں کی ہم نشینی سے خدا ہر شریف آدمی کو محفوظ رکھے۔

- لڑکیوں کی موجودگی میں انتہائی سنجیدہ لوگ بھی شیخیاں بگھارنے لگتے ہیں۔

- اللہ ناٹے کو لمبی اور لمبے کو ناٹی عورت سے بچائے ۔۔۔۔

- ناگن ہر حال میں زہریلی ہوتی ہے ! عورت ناگن ہی کہلاتی ہے نا !

- ہر نسل اور ہر قوم کی عورت ، صرف عورت ہوتی ہے۔

- ہر لڑکی کے معاملے میں خدا سے ڈرنا چاہئے۔

- موٹی محبوبائیں لاش کے سینے پر رکھا ہوا پتھر بن جاتی ہیں۔

- بوڑھی محبوبائیں لات مارنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔

- عورت بجائے خود ایک بہت بڑی طاقت ہے ۔اتنی بڑی کہ مرد پیدا کرتی ہے ۔

- حسن جہاں بھی نظر آئے اسے پوجنا ہی چاہیے ۔خواہ وہ کتے کے پِلّے ہی میں کیوں نہ نظر آئے ۔

- دنیا کی ساری نعمتیں صرف عورتوں ہی کے لئے ہیں ۔

- دَب کر چیونٹی بھی کاٹ لیتی ہے ۔

2009/06/17

اپنے ناولوں کے کرداروں پر ابن صفی کی رائے

ابن صفی کے مطابق "علی عمران" کا کردار قطعی طور پر ان کا تخلیقی کردار ہے۔ ان کے بقول :
اس کردار کی مثال نہ تو مقامی سری ادب میں پائی جاتی ہے اور نہ ہی بین الاقوامی سری ادب میں۔
البتہ فریدی ، حمید اور قاسم کے کردار برطانوی ہندوستان اور اس کی ریاستوں میں سراغرسانی کے شعبے سے تعلق رکھنے والے معروف افراد اور ان کے کارناموں سے متاثر ہو کر تخلیق کیے گئے ہیں۔
مثلاً قاسم ہی کے کردار کو لیجئے۔
ریاست مہوبہ کے ایک پولیس انسپکٹر کے لحیم شحیم صاحبزادے جن کا نام بھی حسن اتفاق سے قاسم ہی تھا ، "قاسم" کے کردار کی وجۂ تخلیق رہے ہیں۔
یہ اصلی تے وڈّے قاسم بھی گریجویٹ ہونے کے باجود بہکی ہوئی ذہنی رو کے مالک تھے۔ اپنی اسی غائب دماغی کا مظاہرہ انہوں نے شبِ عروسی میں دلہن کو مرعوب کرنے کے لیے فرمایا تھا۔ وہ کچھ اس طرح کہ بچاری کو چھپر کھٹ سمیت سر کے اوپر اٹھا لیا۔ وہ بچاری ڈر کر جو بیہوش ہوئی تو ہوش میں آنے کے بعد پھر کبھی موصوف کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔
اس لیے قاسم ایک ایسا کردار ہے جس کو صرف ابن صفی ہی نباہ سکتے ہیں۔ کیونکہ وہ اس کردار کے پس منظر اور ذہنی کیفیات سے بخوبی واقف ہیں۔
ابن صفی کے کرداروں کے چربہ نگاروں کے قلم اسی ایک کردار پر آ کر جام ہو جاتے ہیں۔

قاسم کے بارے میں ابن صفی کے قارئین کی اکثر یہ رائے رہتی ہے کہ اسے بھی صاحبِ اولاد دکھایا جائے۔ اسی قسم کی خواہش حمید ، فریدی اور عمران کے بارے میں بھی پائی جاتی ہے کہ ان کے بھی سہرے کے پھول کھلیں۔ بعض خواہش مند تو فیاض کو بھی صاحبِ اولاد دیکھنا چاہتے ہیں۔
ابن صفی کے نزدیک ان خواہشات کا حل بڑا ہی دلچسپ ہے۔
قاسم کو تو وہ اولاد پیدا کرنے کی صلاحیتوں سے اس وقت تک کے لیے مبرّا قرار دیتے ہیں جب تک اس کے جوڑ کی کوئی خاتون پیدا نہ ہو جائے جس کی جسمانی وضع قطع اور ذہنی رو قاسم جیسی ہی ہو۔
رہے عمران ، حمید اور فریدی ۔۔۔ تو ان کی شادی اس لیے نہیں کرانا چاہتے کہ اس طرح وہ گھریلو تفکرات میں گھر جائیں گے اور ان میں وہ بےجگری نہیں رہے گی جو ان کے کردار کا خاصہ ہے ، ہو سکتا ہے شادی ہونے کے بعد انہیں انشورنس کی سوجھے۔
ابن صفی اسی ضمن میں آگے کہتے ہیں :
پھر میرا تو یہی مصرف رہ جائے گا کہ میں خالص گھریلو مسلم سوشل اصلاحی رومانی یا تاریخی ناول تحریر کرنے لگوں۔
اپنے فیاض صاحب تو ویسے ہی کیا کم بور کرتے ہیں کہ ان کی اولاد بھی منظرِ عام پر آئے۔ بفرض محال ایسا کیا بھی گیا تو پھر قارئین کے ہاتھوں میں ابن صفی کی کتابوں کے بجائے "بور بور" اور "کرداروں کا استحصال بند کرو" کے پلے کارڈ ہوں گے۔ ویسے بھی یہ عوامی دور ہے۔

ابن صفی پر ایک بڑا الزام یہ عائد کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو مستقلاً تجرد کی زندگی بسر کرتے دکھا کر تجرّد کی تبلیغ کرتے ہیں۔ اس بارے میں ابن صفی کا موقف یوں ہے کہ :
انہوں نے اپنے قلم کے ذریعے نہ تو کبھی تجرد کی تبلیغ کی اور نہ ہی کبھی اپنے کرداروں (حمید ، فریدی ، عمران وغیرہ) کو بےراہ روی کی طرف مائل دکھایا۔
بقول ان کے :
وہ اپنے کرداروں میں جنس کے جذبے پر قابو پانے کی صلاحیت سے وہ قوت پیدا کرتے ہیں جس کی ضرورت مہمات کو سر کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کردار تنہائی میں صنف نازک سے گزوں پرے رہتے ہیں اور اس نظریے کو ان کے قارئین من و عن تسلیم کرتے ہیں کیونکہ انہیں ابن صفی کے کرداروں کی اخلاقی پختگی پر پورا یقین ہے۔
ابن صفی مزید کہتے ہیں کہ :
اگر ان کا قلم کرداروں کو تجرد آمیز زندگی بسر کرتے دکھاتا ہے تو یہ ایک فنی ضرورت بھی ہے۔ ویسے بھی نفسیاتی طور پر جنس کے جذبے کو بڑی آسانی سے ریاضت ، عبادت اور جفا کشی کی طرف منتقل کیا جا سکتا ہے اور یہ کوئی خلافِ فطرت عمل نہیں ہے۔ لیکن وہ اس عمل کی تبلیغ بھی نہیں کرتے ساتھ ہی ساتھ وہ بےراہ روی کو اخلاقی موت سمجھتے ہیں اس لیے اپنے قلم سے اس کی تکذیب کرتے رہتے ہیں۔

قانون

اِدھر اُدھر کی باتوں میں آدمی ہمیشہ ننگا ہو جاتا ہے۔ یعنی تمہاری روح اور فرشتے اِدھر اُدھر کی باتوں میں لازمی طور پر ظاہر ہو جائیں گے۔
تم اِدھر اُدھر کی باتوں میں غیرشعوری طور پر اپنے کردار کی جھلکیاں دکھاتے چلے جاؤ گے۔

ناول : رائفل کا نغمہ

***
آخر یہ سب کب تک ہوتا رہے گا۔۔؟
جب تک اس نظام کی بنیادی خامیاں‌ دور نا کردی جائینگی۔ان کی طرف کوئی بھی دھیان نہیں دیتا۔بس جمہوریت کے ڈھول پیٹے جاتے ہیں‌۔ شائد کوئی بھی نہیں‌جانتا کے جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے یا پھر اسکی طرف سے مصلحتاً ہی آنکھیں‌ بند کرلی گئی ہیں‌۔۔۔بنیادی چیز آدمی کو اپنے مقام کا عرفان ہے۔جب تک آدمی اپنا مقام نہیں‌ پہچانیگا۔کسی نظام کو ڈھنگ سے نہیں‌ چلا سکے گا۔۔

ناول : دہشت گر

***
میں کہتا ہوں! اگر تم قانون کو ناقص سمجھتے ہو تو اجتماعی کوششوں سے اسے بدلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے۔ اگر اس کی ہمت نہیں ہے تو تمہیں اسی قانون کا پابند رہنا پڑے گا!
اگر تم اجتماعی حیثیت سے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اس سے متفق ہو۔ اب اگر متفق ہونے کے باوجود بھی تم اس کی حدود سے نکلنے کی کوشش کرو تو تمہاری سزا موت ہی ہونی چاہئے۔

ناول : لاش کا بلاوا

***
ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموں‌کے تجربات ان کی سمجھ سے باہر تھے کہ ایک آدمی جب پاگل ہوجاتا ہے تو اسے پاگل خانے میں‌ کیوں‌ بند کردیتے ہیں‌' اور جب کوئی قوم پاگل ہوجاتی ہے تو " طاقتور " کیوں‌ کہلانے لگتی ہے ؟

ناول : انوکھے رقاص

***
یہاں‌ ہر آدمی اپنی راہ کا کانٹا ہٹا دیتا ہے یہ ایک فطری بات ہے ۔کبھی اس فعل کی حیثیت انفرادی ہوتی ہے اور کبھی اجتماعی' اجتماعی حیثیت کو ہم قانون کہتے ہیں‌۔
ہر وقت قہقہے لگانے والوں‌ پر حالانکہ کسی غم کا اثر دیر پا نہیں ہوتا لیکن پھر بھی وہ تھوڑا سا غم انگیز وقفہ انکے لئے اتنا جان گسل ہوتا ہے کے کچھ دیر کے لئے انکی رجائیت کی بنیادیں‌ تک ہل جاتی ہیں‌۔

ناول : کچلی ہوئی لاش

شیر کا شکار

ہانکا کرنے والوں کا شور بہت دور سے سنائی دے رہا تھا۔ میں شیر کا منتظر رہا۔ گٹھری میں سے ایک پتلون کھینچ کر سامنے رکھ لی تھی۔ پاڑا تالاب کے کنارے کھڑا اطمینان سے جگالی کر رہا تھا۔
کچھ دیر بعد دور سے شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی ۔ میں نے رائفل ہاتھ سے رکھ کر پتلون سنبھال لی۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ شیر بھی آ گیا۔ بڑی شان سے آہستہ آہستہ چلتا ہوا تالاب کی طرف آ رہا تھا۔ پتلون بھی میرے ہاتھ سے چھوٹ پڑی ۔ پاڑے کی بری حالت تھی۔ دفعتاً شیر نے ہلکے سے قہقہے کے ساتھ اُس سے کہا :
"برخوردار ، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں لنچ کر چکا ہوں۔ شکاری صاحب چغد معلوم ہوتے ہیں ۔ تمھیں خواہ مخواہ تکلیف دی"۔
اپنے لیے لفظ چغد سن کر میں غصے سے پاگل ہو گیا اور یہ بھی بھول گیا کہ کچھ دیر پہلے بے حد خائف تھا۔
میں نے اپنا سینہ ٹھونک کر کہا : "میں ادیب ہوں"۔
پھر میں نے محسوس کیا کہ شیر میری طرف مڑ کر حقارت سے مسکرایا ہے۔ اُس نے کہا :
"تب تو تم چغد سے بھی سینئر ہو ، یعنی اُلّو"۔
میں نے رائفل سنبھالتے ہوئے اُسے للکارا : "زبان سنبھال کر بات کر"۔
وہ ہنسنے لگا۔ دیر تک ہنستا رہا۔ پھر بولا : "رکھ دو۔ رائفل رکھ دو۔ کیوں ایک گولی ضائع کروگے؟ ٹرانزسٹر ریڈیو سیٹ ہو تو نکالو ، میں ابھی تمھارے سامنے یہیں دم توڑ دوں گا"۔
"کیا بکواس ہے؟" میں نے چیخ کر کہا۔

" یقین کرو میرے دوست"۔ وہ بے حد سنجیدہ ہو کر گلوگیر آواز میں بولا۔
" کلامِ اقبال کی قو ّالی سن کر میں زندہ نہیں بچوں گا۔ دراصل خودکشی ہی کی نیت سے میں میں بستی والوں کے ٹرانزسٹر سیٹ اُٹھا لاتا ہوں۔ ایک دن اتفاق سے اسی وقت میں نے ریڈیو کھولا۔ کہیں سے کلامِ اقبال کی قوالی ہو رہی تھی۔ میری حالت بگڑنے لگی۔ بس مرنے ہی والا تھا کہ کمبخت بیٹریاں ایگزاسٹ ہو گئیں۔ ریڈیو بند ہو گیا اور میں مر نہ سکا۔
آدمی تو کیا ، اس ملک کے جانوروں کو بھی زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں۔ جہاں اقبال جیسا عظیم المرتبت شاعر قوالوں کے حوالے کر دیا گیا ہو۔ کیا بتاؤں دل کی کیا حالت ہوتی ہے ، جب اس ملکوتی کلام پر بے ہنگم اور بھدی موسیقی کے بغدے چلتے ہیں۔ آخر اس عظیم شاعر کو کس گناہ کی پاداش میں قوالوں کے حوالے کر دیا گیا ہے ؟ قیامِ پاکستان سے قبل تو ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ شاید نظریۂ پاکستان پیش کرنے کی سزا ہے"۔

۔۔۔ پھر وہ شیر دفعتاً نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اور میرے کانوں سے ڈھولک اور ہارمونیم کا شور ٹکرانے لگا۔ کچھ ایسی اذیت ہوئی کہ بے ساختہ اچھل پڑا۔ آنکھیں مَل کر دیکھا تو ایڈیٹر صاحب سامنے بیٹھے ہوئے جھومتے نظر آئے۔ ریڈیو پوری آواز سے کھلا ہوا تھا اور شبِ جمعہ ہونے کی وجہ سے قوالی جاری تھی۔ قوال صاحب فرما رہے تھے :
خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا نہ کرے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں

سچ کہتا ہوں ، میرا بھی یہی جی چاہا کہ خودکشی کر لوں۔ اب یہاں تک نوبت پہنچ چکی ہے کہ قوال حضرات کلامِ اقبال پر اصلاح بھی فرمانے لگے۔
میںنے ریڈیو کی طرف ہاتھ اُٹھا کر ایڈیٹر صاحب سے پوچھا : " یہ کیا بک رہا ہے ؟"
جھومتے ہوئے بولے : "پتا نہیں ۔ ویسے میں پسند نہیں کرتا کہ میرے دفتر میں کام کرنے والا کوئی آدمی کرسی پر ہی سونا شروع کر دے"۔
" میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا یہ صحیح شعر پڑھ رہا ہے ؟" میں نے غصیلی آواز میں پوچھا۔
" مجھے شعر و شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ تم میری بات کا جواب دو"۔
" دیتا ہوں ، جواب "۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا ...
ہاتھ بڑھا کر ایڈیٹر صاحب کا گریبان پکڑ لیا اور ایک ہی جھٹکے میں وہ بھی اٹھتے چلے آئے۔ اب اُن کی گردن میری گرفت میں تھی اور میں دانت بھنچے کہہ رہا تھا ...
" شیر کے شکار سے پہلے ، تم جیسے مٹی کے شیروں کا شکار ہونا چاہئے ، جو ادب کے سچے خادم بھی ہیں اور جنھیں کلامِ اقبال کی قوالی پر حال بھی آتا ہے "۔
وہ غُل مچاتے رہے ، لیکن میں نے اُنھیں اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک کہ اُن کا دَم نہیں نکل گیا ۔

پیش رس :: قاصد کی تلاش

-- عمران سیریز کا فلاں تحیر خیز اور قہقہہ انگیز ناول ۔۔۔ مزہ نہ آئے تو ایمان دھرم سے لکھ دینے پر آدھی قیمت واپس۔

-- خدا کی قسم اس ناول کا نام " قاصد کی تلاش" ہے۔

-- مصنف ابنِ صفی (بی۔اے) کے دُم چھلے سمیت ۔۔۔ خدا رحم کرے اس ذہنیت پر۔

-- دفتر اس کھیت میں پایا جاتا ہے جہاں آدمیوں کی کاشت ہوتی ہے ، مزید آسانیوں کے لیے قبرستان بھی قریب ہے۔

-- جملہ حقوق بالکل محفوظ ہیں ۔۔۔ اگر یقین نہ آئے تو دفتر آ کر زبانی پوچھ جائیے ، آمد و رفت کا کرایہ ہمارے ذمہ۔

-- بھارت میں حقوقِ اشاعت عباس حسینی صاحب کے نام محفوظ ہیں۔ یقین نہ آئے تو انہیں ایک بیرنگ خط بھیج کر دریافت کر لیجئے اور اس وقت تک بیرنگ خطوط بھیجتے رہئے جب تک جواب نہ آ جائے۔

-- خدا کو حاضر ناظر جان کر کہا جاتا ہے کہ اس ناول کے نام ، مقام ، کردار اور کہانی سے تعلق رکھنے والے اداروں کے نام قطعی فرضی ہیں۔ اگر اس حلفیہ بیان پر آپ کو یقین نہ آئے تو صبر کیجئے۔

-- قیمت ایک روپیہ سے ایک پیسہ کم نہ ہوگی۔ بہمنی کا پہر ہے بور نہ کیجئے۔

-- زرِ سالانہ مع رجسٹری خرچ مبلغ گیارہ روپے۔ لائیبریریوں سے مبلغ پانچ روپے زائد یعنی سولہ روپے کیونکہ لائیبریری والے ایک روپیہ سے نہ جانے کتنے روپے بنا لیتے ہیں۔

-- ممالک غیر سے سترہ شلنگ (ہمیں نہیں معلوم کہ ایک روپیے میں کتنے شلنگ ہوتے ہیں۔ اللہ کے بھروسے پر سترہ شلنگ لکھ دئے جاتے ہیں)۔

-- بےچارے ابن صفی پرنٹر پبلشر (شامتِ اعمال سے) نے دفتر سے فلاں پریس تک کئی روز جوتیاں چٹخانے کے بعد بہزار دقت چھپوایا اور فلاں فلاں مقام سے رو رو کر شائع کیا ۔۔۔ رویا اس لیے کہ ہر جزو کا ایک آدھ صفحہ ضرور اُڑا ہوا نظر آیا۔ پریس والوں سے شکایت کی تو بولے کتابت درست نہیں تھی۔ کاتب سے کہئے کہ گاڑھی روشنائی استعمال کرے۔ کاتب تک ان کا پیغام پہنچایا تو بڑی حیرت سے بولے کہ ارے ، آپ اس پریس میں چھپواتے ہیں ، وہاں تو ساری مشینیں چوپٹ ہیں ، میں اتنی گاڑھی روشنائی استعمال کرتا ہوں کہ اگر آپ کے چہرے پر اس کا پلاسٹر کر دیا جائے تو کم از کم چھ ماہ تک آپ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں۔

ابن صفی - علی سفیان آفاقی

ابن صفی
تحریر : علی سفیان آفاقی


اب تو پڑھنے کا شوق بہت کم ہوگیا ہے خصو صاً نئی نسل میں۔ لیکن ایک زمانے میں مطالعہ ہی اوّلین شوق اور مشغلہ تھا۔
ہمارے بچپن میں ہر محلے میں آنہ لائبریریاں ہو کرتی تھیں جن میں ہر ذوق کے لوگوں کے لیے کتابیں ملا کرتیں تھیں۔ ہم بھی ان لائبریریوں کے شیدائی تھے۔
تاریخی اور جاسوسی ناولوں کے ساتھ افسانے ، کہانیاں ، شعرو شاعری کی کتابیں لے کر آتے تھے۔ گھر والے ہمارے شوق کے مخالف نہ تھے لیکن ایک خاص حد تک ۔
یہ نہیں کہ ہر وقت ناول ہیں اور ہم ہیں۔ اس کا توڑ ہم نے یہ نکالا تھا کہ نصاب کی کتابوں کے درمیان میں ناول اور افسانے کی کتابیں رکھ کر چوری چوری پڑھا کرتے تھے۔ اگر کبھی پکڑے گئے تو شامت آجاتی تھی۔
دراصل عمر کے ہر مرحلے میں مطالعے کا معیار بدلتا رہتا ہے۔ ہم نے بھی تیرتھ رام فیروز پوری کے تراجم، منشی صادق حسین سردھنوی کے اسلامی ناول ، ایم ۔اسلم کے ناولٹ سے آغاز کیا تھا۔ جاسوسی ناول بہت پسندیدہ تھے پھر اسلامی تاریخی ناول ۔ اس کے بعد دوسرے ناول اور افسانے مرغوب رہے۔

نو عمری میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے اِبن صفی کے ناول نہ پڑھے ہوں۔ اِبن صفی اپنے ساتھ ایک نیا انداز اور نئے کردار و اسلوب لے کر آئے تھے۔ نو جوان اور نو عمر لوگ ان کے دلدادہ تھے۔ اِبن صفی کو کو جاسوسی ناول نگاروں میں وہی درجہ حاصل تھا جو اسلامی تاریخی ناولوں میں نسیم حجازی کو حاصل رہا۔ یہ لوگ تیرتھ رام فیروزی اور صادق حسین سر دھنوی کے جانشین تھے اور نئے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنے کی پوری صلاحیت و اہلیت رکھتے تھے۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ اگر صاف ستھری نثر لکھنے کاشعور حاصل کرنا ہے تو اِبن صفی کا مطالعہ کرنا چاہئے۔

اللہ اللہ اِبن صفی کے پڑھنے والوں کی دیوانگی اور شوق کا بھی کیا عالم تھا ، بقول شاعر۔
یہ عالم شوق کا دیکھا نہ جائے
ہر نو جوان کے ہاتھ میں اِبن صفی کے ناول نظر آتے تھے ۔ انہوں نے انوکھے اور نت نئے کردار تخلیق کئے تھے۔ ایک نئی دنیا پڑھنے والوں سے متعارف کرائی تھی۔ انہیں اپنے انداز کے لکھنے والوں میں ایک ممتاز اور منفرد مقام حاصل تھا۔ انہوں نے ہلکے پھلکے ادب سے پڑھنے والوں کا تعارف کرایا اور ساتھ ہی نئے نئے دلچسپ اور منفرد کردار بھی تراشے جن کے شیدائیوں کی کمی نہ تھی۔
وہ وقت اور زمانے کے مطابق تحریروں کے خالق تھے۔ ان کا انداز ان ہی پر ختم ہو گیا لیکن اس زمانے کے مقبول لکھنے والوں میں ان کا مقام کوئی دوسرا حاصل نہ کر سکا اور نہ کر سکے گا۔
انہوں نے جاسوسی ادب میں بلکل نیا انداز پیش کیا تھا۔ وہ صاحِب طرز ادیب بھی تھے اور شاعر بھی۔ ان کے قارئین کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں تھی۔

آج ہیری پوٹر جیسے کرداروں کا چرچا ہے ، ابن صفی کے زمانے میں عمران ، کرنل فریدی ، کیپٹن حمید ، قاسم کا چرچا تھا۔ یہ کردار بے انتہا مقبول اور پسندیدہ تھے۔ یہ سب ان کے اپنے تخلیق کئے ہوئے دلچسپ زندگی سے بھر پور مہم جو کردارتھے جو ہنستے ہنساتے بھی تھے۔اور حیران بھی کردیا کرتے تھے۔
عمران سیریز اپنی طرز کی ایک نئی سیریز تھی۔ جس کے شائقین ہرماہ بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔ اِبن صفی نے ساری زندگی اپنی توجہ جاسوسی ناولوں پر مرکوز رکھی تھی۔ جاسوسی دنیا نے قیام پاکستان سے پہلے ہی بے پناہ مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہیری پوٹر کی مصنف نے کروڑوں ڈالرز کمائے ۔ اِبن صفی کے حصے میں لاکھوں روپے بھی نہ آئے!

ہیری پوٹر کی خالق جے۔کے۔رولنگ ، پانچ ناول لکھ کر امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل ہو گئیں۔
اِبن صفی کے ناول بلیک میں فروخت ہوتے تھے۔ ان کے ناولوں کا بھی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ نقال اور جعلی اِبن صفی بھی پیدا ہوگئے جو کہ ان کی مقبولیت اور انفرادیت کا ثبوت ہے۔
سارجنٹ حمید، عمران ، کرنل فریدی نے ایسی مقبولیت حاصل کی کہ باید و شاید۔ ان کے پہلے ناول نے ہی پڑھنے والوں کو چونکا دیا تھا۔ اور ان کی توجّہ اپنی جانب مرکوز کر لی تھی۔ لوگ انکے دیوانے تھے۔ انہوں نے کبھی یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ ان کے کردار کس ملک اور کس جگہ سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان کی سحر انگیزی میں کوئی کمی نہیں آئی ۔ پڑھنے والے انہیں حقیقی کردار اور حقیقی دنیا سمجھتے تھے۔ کون تھا جس نے نو عمری اور زمانہ طالب علمی میں ان کا مطالعہ نہ کیا ہو۔

ان کا ہر کردار مختلف اور منفرد تھا۔ وہ حیران بھی کرتا تھا اور ہنساتا بھی تھا۔ انکی ہر سیریز کے کردار مختلف اور انوکھے تھے۔ ان کے عادات واطوار بھی یکسر مختلف اور نرالے تھے۔ اردو کے جاسوسی ادب میں کوئی دوسرا ان کا ثانی اور حریف پیدا نہ ہوا ۔ چالیس کی دہائی سے ستر اور اسی کی دہائی تک انہیں جو ممتاز مقام اور حیثیت حاصل تھی وہ کسی دوسرے کو نصیب نہ ہوئی۔
ادیب ، نقاد اور بڑے بڑے نامور لکھنے والے بھی ان کے قائل اور قاری تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ وہ ہر ماہ جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کے دو ناول لکھتے تھے پڑھنے والے ان کے منتظر رہا کرتے تھے۔ اور ہاتھو ں ہاتھ گرما گرم کیک کی طرح وہ فروخت ہو جاتے تھے۔ سلسلہ سالہا سال تک جاری رہا۔ نہ اِبن صفی کی تخلیقی صلاحیتوں میں کمی آئی نہ انکے پڑھنے والوں اور ان کے ذوق و شوق میں ۔ وہ ساری عمر ادبی مشقت کرتے رہے مگر حق تو یہ ہے کہ اس کے عشرِ عشیر بھی نہ کمایا۔

اِبن صفی کا اصلی نام اسرار احمد تھا۔ ان کا تعلق ایک ممتاز ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کا خاندان نارا کے راجا ویشر ادیال سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ لوگ بعد میں ''ناروی '' کے نام سے معروف ہوئے۔ اِبن صفی کے والد کا نام صفی اللہ اور والد ہ کا نام نذیرہ بی بی تھا۔ ان کے والد ایک جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے دادا تقسیم ہند سے قبل ایک اسکول ٹیچر تھے۔ والدہ کا خاندان حکیموں کا خاندان کہلاتا تھا جن کی کتابیں آج بھی طبّی مدرسوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔

اِبن صفی 26 جولائی 1928ء کو الہ آباد کے ایک گاؤں "نارا" میں پیدا ہوئے اور 26 جولائی 1980ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ وہ بچپن ہی سے لکھنے لکھانے کا شوق رکھتے تھے۔ وہ ساتویں جماعت میں تھے جب ان کی پہلی کہانی شائع ہوئی تھی۔ انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی سے انٹر اور آگرہ یونیورسٹی سے بی۔اے کیا تھا۔ نارا سے ان کا خاندان الہ آباد منتقل ہو گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عملی زنگی کا آغاز ایک اسکول ٹیچر کی حثیت سے کیا تھا مگر پھر ناول نگاری کی طرف متوجّہ ہوگئے۔ انہوں نے ڈھائی سو سے زائد ناول تحریر کیے جن کا ہندوستان کی بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ اِبن صفی نے اردو کے جاسوسی ناولوں میں ایک نیا اسلوب اپنایا تھا۔ جو اس سے پہلے اردو میں کبھی کسی نے نہیں اپنایا۔

اِبن صفی کو بچپن ہی سے ادب اور شعر و شا عری سے دلچسپی تھی۔ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بھی نو عمری میں ہی شروع کیا تھا۔ اس زمانے میں بھی اردو میں جاسوسی ناولوں کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا۔ انگریزی ناولوں کا ترجمہ یا تلخیص ہی شائع ہوتی تھی جو ایک خاص طبقے میں بے حد پسند کی جاتی تھی۔ اِبن صفی کا خیال یہ تھا کہ اردو میں بھی ہلکا پھلکا شگفتہ ادب تخلیق کیا جاسکتا ہے۔ اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے انہوں نے الہ آباد میں "جاسوسی دنیا" کے نام سے ناولوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں انہوں نے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کردار پہلی بار قطعی انوکھے اور شگفتہ انداز میں پیش کیے۔
ان کا پہلی جاسوسی ناول "دلیر مجرم" تھا۔ یہ اردو ادب میں ایک نئے تخلیق کار کا پہلا قدم تھا جس نے اس صنف میں نت نئے تجرنبے کیے، نئی زمین اور نئے کردار تخلیق کیے، انوکھے اور دلچسپ واقعات کے تانے بانے پن کر پڑھنے والوں کو مسحور کردیا۔

اِبن صفی اور ان کے ہم مذاق دوستوں نے الہ آباد میں ایک ادبی رسالہ "نکہت" کی اشاعت کا آغاز بھی کیا تھا۔ یہ رسالہ بے حد پسند کیا گیا۔ اس طرح اِبن صفی نے کامیابیوں اور کامرانیوں کے ساتھ اردو ادب میں قدم رکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اپنا لوہا منوالیا۔ ایک زمانہ ان کا گرویدہ ہوگیا۔ ہلکے پھلکے ادب میں انہیں ایک ممتاز مقام حاصل ہوگیا۔
اِبن صفی نے آغاز میں اسرار احمد کے نام سے لکھا پھر اسرار ناروی کا قلمی نام اختیار کیا۔ انہوں نے فکاہیہ مضامین کا ایک سلسلہ شروع کیا۔ ان کے کردار بھر پور اور مزاحیہ ہوتے تھے ۔ سنکی سپاہی اور تغرل خان کے کردار ان کی ابتدائی تخلیق ہیں۔

ان کے ناولوں کے سلسلے "جاسوسی دنیا" نے قیام ِ پاکستان سے قبل ہی مقبولیت حاصل کر لی تھی ۔ پاکستان آنے کے بعد انہوں نے ایک نیا سلسلہ "عمران سیریز" کے نام سے شروع کر دیا جس کا مرکزی کردار عمران تھا۔ عمران نے اِبن صفی کے کرداروں میں غالباً سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ دوسرے کردار بھی کافی مقبول ہوئے۔
نو عمر ، نو جوان، بوڑھے، خواتین ، سبھی ان ناولوں اور کرداروں کے سحر میں گرفتار ہو گئے ۔ اردو ادب میں اِبن صفی کے ناولوں اور کرداروں سے زیادہ کسی کو ایسی شہرت اور مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔ یہ نام ضرب المثل کی حثیت اختیار کرگئے تھے۔ ان کی مقبولیت اور مانگ نے کئی جعل ساز بھی پیدا کردئے جو اِبن صفی کے نام سے ناول شائع کر کے پیسہ کمایا کرتے تھے۔

اِبن صفی ایک زرخیز ذہن کے مالک تھے۔ ان کے ناولوں اور کرداروں میں ہمیشہ کرئی انوکھی اور چونکا دینے والی بات نظر آتی تھی۔ ہر ماہ دو ناول لکھنا کوئی مذاق نہیں ہے۔ دنیا میں اس کی کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔ اِبن صفی کے ناولوں کی اشاعت میں کبھی تاخیر ہوئی نہ ہی ناغہ۔ یہ بھی ایک ریکارڈ سمجھ لیجئے۔
اِبن صفی کے پاکستان آنے سے پہلے حکومت نے انہیں ترقی پسند قرار دے کے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کردیے تھے حالانکہ اِبن صفی کبھی سکہ بند ترقی پسند ادیب نہیں رہے۔

پاکستان آنے کے بعد انہوں نے پہلے لیاقت آباد اور پھر فردوس کالونی میں اپنا ٹھکانہ بنایا۔ اسی گھر میں ان کا دفتر بھی تھا۔ اپنے تمام جاسوسی ناول انہوں نے اپنے گھر کے اند ر بیٹھ کر ہی تحریر کئے تھے۔
انہوں نے ا سرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ اس ادارے کے واحد مصنف اور روح رواں وہ خود تھے۔ "عمران سیریز" اور "جاسوسی دنیا" اس ادارے ہی کی تخلیقات تھیں۔
ابن صفی کی شادی 1952ء میں ہوئی تھی ان کی بیگم کا نام سلمیٰ خاتون تھا۔

ہر ماہ باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ دو ناول لکھنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن اِبن صفی نے بہت پابندی سے اس کو نبھایا یہاں تک کی وہ بیمار پڑ گئے۔ ان کی صحت بہت خراب ہو گئی تھی لیکن ایک حکیم اقبال حسین کے علاج سے وہ صحت یاب ہوگئے اور اردو کے اس منفرد ناول نگار کو اللہ نے ایک نئی زندگی دے دی۔ بیماری سے صحت یاب ہونے کے کچھ عرصے بعد وہی اِبن صفی تھے اور وہی ان کے مہینے میں دو ناول ۔ اِبن صفی کو قدرت نے فطری طور پر ایسا ذہن دیا تھا جس کا رحجان سائنسی تجربات اور پراسرار واقعات کی جانب تھا۔ وہ ایک قدرتی حس رکھتے تھے۔ ان کی ا س صلاحیت سے متاثر ہو کر ایک خفیہ ادارے کے لئے بھی ان کی خدمات حاصل کی گئیں جہاں وہ نوجوانوں کو جاسوسی کے طریقوں کے بارے میں لیکچر دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی ناول نگاری کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

اِبن صفی کے ناولوں کی اپج اور مقبولیت سے متاثر ہوکر کراچی میں مولانا ہپی نامی ایک فلم ساز نے عمران سیریز کے ایک ناول پر مبنی فلم بھی بنائی تھی جس میں جاوید شیخ اور شبنم نے مرکزی کردار ادا کیے تھے۔ فلمساز کا اصل نام محمد حسین تالپور تھا لیکن مولانا ہپی کے نام سے مشہور تھے۔ یہ جاوید شیخ کی پہلی فلم تھی۔
کہانی کے ساتھ انصاف نہ ہونے اور ناقص تکنیکی کمزوریوں کے باعث یہ فلم جس کا نام "دھماکا" رکھا گیا تھا بری طرح فلاپ ہوگئی۔ جاوید شیخ نے ٹی وی ڈراموں میں بہت کامیابی حاصل کی اور بلآخر نذر شباب کی فلم "کبھی الودع نہ کہنا" میں جب دوبارہ شبنم اور سری لنکا کی اداکارہ سبیتا کے ساتھ پیش کئے گئے تو صحیح معنوں میں ان کا دوسرا فلمی جنم تھا۔ یہ فلم سپر ہٹ ثابت ہوئی جس نے جاوید شیخ کو راتوں رات اسٹا ر بنا دیا۔
اِبن صفی کے ایک ناول کو پاکستان ٹیلی ویژ ن نے بھی بنایا تھا لیکن یہ سیریل نمائش کے لیے پیش نہیں کی جا سکی۔ قوی نے ا س سریل میں عمران کا کردار ادا کیا تھا۔

اِبن صفی ساری زنگی قلمی مشقت کرتےرہے تھے۔ 1979ء میں وہ کینسر میں مبتلا ہو گئے اور ایک سال بعد انتقال کر گئے۔ بیماری کے دنوں میں بھی وہ ناول لکھتے رہے ۔ ان کا آخری ناول "آخری آدمی" تھا۔ آخری ناول کا یہ نام محض اتفاق تھا یا انہوں نے جان بوجھ کر رکھا تھا؟ اس بارے میں شاید کوئی نہیں جانتا۔

1980ء میں البیلا ، ذہین اور اپنی طرز کا انوکھا ناول نگار اللہ کو پیارا ہوگیا۔
چند سال تک ان سے ناولوں کو بہت مقبولیت اور پذیرائی حاصل رہی لیکن پھر زمانے کے دستور کے مطابق زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں اور رحجانات کے باعث رفتہ رفتہ اِبن صفی کے ناولوں کی مانگ اور دلکشی میں کمی واقع ہونے لگی۔ اب تو نئی نسل ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہے۔ مطالعے کے شوق میں کمی اور ٹی وی کمپیوٹر اور دوسری جدید ایجادات کی جانب رحجان بھی اس کا ایک سبب قراردیا جاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اِبن صفی کو ان کی شان شایان مرتبہ نہ ملا ۔ نہ ہی اس مشقت کا معقول معاوضہ حاصل ہوا۔

اِبن صفی کے ناولوں میں پر اسراریت اور جاسوسی کے عناصر کےساتھ ساتھ انسانی نفسیات سے بھی مدد لی جا تی تھی ۔ انہوں نے بعض ایسے واقعات اور ایجادات کا بھی ذکر کیا ہے جو کہ اس زمانے میں ناپید اورخواب خیال تھے۔ دہشت گردوں کے گروہ جو انہوں نے اپنے ناولوں میں پیش کیے تھے آنے والے زمانے میں حقیقت بن گئے ۔
انہیں انوکھے کردار تخلیق کرنے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔ ویسے کردار نہ تو اس سے پہلے کسی نے پیش کیے اور نہ ہی بعد میں ناولوں میںنظر آئے۔ ان کے ناول ہلکے پھلکے ، شوخ و شنگ واقعات ، پر اسرار پیچیدگیوں اور انوکھے کرداروں سے آرستہ ہوتے اور اپنی مخصوص عادات اور خوبیوں یا خامیوں کے باعث فوراً مقبول اور معروف ہوجاتے تھے۔ ان کے ناولوں میں ایک نئی اور انجانی دنیا اور عام انسانوں سے مختلف کردار نظر آتے تھے۔

ادب کے نک چڑھے ٹھیکے داروں اور نقادوں نے اِبن صفی کو کبھی کوئی اہمیت نہیں دی حالانکہ وہ اردو ادب میں ایک نیا اور چونکا دینے والا اضافہ تھے مگر ہم نہ ہی کسی فنکار اور تخلیق ساز کی قدر کرتے ہیں اور نہ انہیں سر آنکھوں ہر بٹھاتے۔
انہیں کڑی محنت کا معقول صلہ بھی نہ مل سکا لیکن جو قبول ِ عام حاصل ہوا وہی ان کا سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ انہیں زندگی میں بھی حاصل رہا اور وفات کے بعد بھی کوئی اس کو چھین نہ سکا۔

اِبن صفی (اسرار احمد) شاید اپنے نام کے اثر کے تحت پراسرار اور جاسوسی ذہن اور سوچ کے حامل تھے اسی لیے اس ذریعے سے انہوں نے شہرت اور عزت حاصل کی ۔
جو لوگ کہتے ہیں کہ "ناموں میں کیا رکھا ہے" شاید غلط کہتے ہیں۔ ہم نے ایسے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اسمِ بامسمیٰ تھے۔ اپنے ناموں کی مناسبت سے انہوں نے بڑے بڑے کام کیے اور نمایاں حیثیت حاصل کی ۔ یقین نہ ہو تو اسرار احمد ہی کو دیکھ لیجئے۔

کئی بار خیال آتا ہے کہ اگر وہ کسی ترقی یافتہ ملک میں پیدا ہوتے اور وہاں رہتے تو کیا ہوتے؟
بہت بڑا نام !!
کروڑوں میں کھیلتے۔ ان کا نام ہمیشہ کے لیے کتابوں اور لائبریر یوں میں زندہ رہتا لیکن پاکستان جیسے ملک میں رہ کر بھی انہوں نے غیر یقینی حد تک کامیابی ، شہرت اور دولت حاصل کی ۔
یہی بات کیا کم ہے کہی وہ ساری زنگی صرف قلم کے سہارے ہی زندہ رہے۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے اس کے لیے شب و روز محنت کی۔ محض قلم کے سہارے زندگی گزارنے والے اگر سفید پوشی کا بھرم بھی قائم ر کھ لیں تو یہی بہت بڑی بات ہے۔

سعادت حسن منٹو کی مثال دیکھ لیجئے۔ انہوں نے اتنا لکھا جتنا ایک عام ادیب پڑھتا بھی نہ ہوگا ۔ وہ اردو ادب کے منفرد افسانہ نگار اور لاثانی شخصیت تصور کیے جاتے ہیں مگر وہ کس طرح جئے، عرصہ حیات قائم رکھنے کےلیے انہیں کیا کچھ کرنا پڑا۔ کتنے دکھ سہنے پڑھے۔ کتنے صدمے اٹھانے پڑے۔ یہ کون نہیں جانتا؟
اِبن صفی اور سعادت حسن منٹو کا آپس میں موازنہ نہیں کیا جاسکتا لیکن قلم کی مزدوری اور مشقت کی حد تک وہ کتنے یکساں تھے؟ اس غم بھری داستان کو نہ چھیڑنا ہی بہتر ہوگا۔


کمپوزنگ بشکریہ : بلیک کوئن / لزا خان
پروف ریڈنگ : باذوق

کبھی قاتل ، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے

ابن صفی مرحوم
نے جاسوسی ناول لکھنے سے قبل ، اسرار ناروی کے نام سے شاعری بھی کی تھی اور ان کی شاعری اس قدر متاثر کن تھی کہ بقول خود ان کے :
ان کے ایک بزرگ استاد ، ابن صفی کے جاسوسی ناول نویس بننے پر سدا ان سے ناراض رہے۔


جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے ، نہ جانے وہ چیز کیا ہوتی


***

کبھی قاتل ، کبھی جینے کا چلن ہوتی ہے
ہائے کیا چیز یہ سینے کی جلن ہوتی ہے

چھیڑیے قصۂ اغیار ہی ، ہم سن لیں گے
کچھ تو کہئے کہ خموشی سے گھٹن ہوتی ہے

یادِ ماضی ہے کہ نیزے کی اَنّی کیا کہئے؟
ذہن میں ایسی چبھن ، ایسی چبھن ہوتی ہے

پھول کھلتے ہی چمن آنکھ سے اوجھل ہو کر
ڈھونڈتا ہے اسے جو رشکِ چمن ہوتی ہے

کتنی ہی زہر میں ڈوبی ہوئی رکھتی ہو زباں
پھر بھی وہ نازشِ گل غنچہ دہن ہوتی ہے

ابن صفی انٹرویو (پیش رس سے) - 1

{ ابن صفی مرحوم کا یہ انٹرویو ۔۔۔ اُن کے ناولوں کے دلچسپ "پیش رَس" کو سامنے رکھ کر مرتب کیا گیا ہے ۔ اور یہ کئی حصوں پر مشتمل ہے }


> ابن صفی صاحب ، یہ بتائیے کہ جاسوسی ناول لکھتے وقت آپ کے پیش نظر کیا مقصد ہوتا ہے ؟
>> جاسوسی ناول لکھنے کا مقصد صرف تفریح !

> کیا آپ معاشرے کا اخلاقی پہلو بھی مد نظر رکھتے ہیں اور کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کا طرز تفریح ذہنوں پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے ؟
>> اخلاقی پہلو کو فیشن کے طور پر پیش نظر رکھتا ہوں۔ جاسوسی ناول لکھنے سے میرا مقصد اصلاح کبھی نہیں ہوتا۔ اصلاح میرے نزدیک ثانوی حیثیت رکھتی ہے ۔ اصلاح کے لئے میں نے جاسوسی ناول کبھی نہیں لکھے ۔

> لیکن اس کے باوجود بھی آپ کی کتابوں میں عورت اور مرد اس قدر دور دور رہتے ہیں ؟
>> بات دراصل یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ارتقاء کی اس منزل میں ہے جہاں عورت اور مرد کے درمیان کم از کم ایک چپل کا فاصلہ تو ضرور ہونا چاہئے ۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ اگر مردوں کے دوش بدوش ترقی کی راہ پر چلنے والی کوئی عورت کسی فٹ پاتھ پر چلتی جارہی ہے اور آپ سے سہواً بھی ٹکراؤ ہو گیا تو آپ اُسے دوش بدوش کے بجائے پاپوش بدست دیکھیں گے۔

> بعض ادیبوں کا خیال ہے کہ جاسوسی ناولوں کی وجہ سے جرائم پھیلتے ہیں ؟
>> سب سے پہلا جرم ہابیل قابیل والی ٹریجڈی ہے ۔ اور میں آج خدا کو حاضر و ناظر جان کر آپ کو اطلاع دے رہا ہوں کہ اس ٹریجڈی سے پہلے میں نے کوئی جاسوسی ناول نہیں لکھا تھا۔
لیکن کوا بیچارہ آج تک پشیمان ہے کہ اس حضرت آدم (ع) کو مٹی کھود کر دفن کر دینے کا فن کیوں کیوں سکھایا ؟ کوّے کا خیال ہے کہ اس غلطی کی بنا پر آج اولادِ آدم (ع) آدمی ہی کو زندہ دفن کر دینے کے فن میں طاق ہو گئی ہے ۔

> ادب میں آپ کا کیا مقام ہے ؟ آپ ادب کی خدمت کیوں نہیں کرتے ؟
>> آپ تو مجھے صرف اُردو کی خدمت کرنے دیجئے۔ اس کے باوجود کہ صرف و نحو کی غلطیاں مجھ سے بھی سرزد ہوتی رہتی ہیں۔ آپ اُس وقت کی میری خوشی کا اندازہ نہیں لگا سکتے جب مجھے کسی سندھی یا بنگالی کا خط اس مضمون کے ساتھ ملتا ہے کہ محض آپ کی کتابیں پڑھنے کے شوق میں اُرد و پڑھ رہا ہوں۔ اور پھر پڑھ کر سنانے والوں کا احسان کہاں تک لیا جائے ؟
اب بتائیے ، ادب کی خدمت کروں یا میرے لئے اُرد و کی خدمت مناسب ہوگی ؟ ویسے اپنے نظریات کے مطابق میں ادب کی بھی خدمت کر رہا ہوں اور سوسائٹی کی بھی ... میری اس خدمت کا انداز نہ تو بدلتے ہوئے حالات سے متاثر ہوتا ہے اور نہ وقتی مصلحتوں کے تحت کوئی دوسری شکل اختیار کر سکتا ہے ۔ بہرحال میں قانون کا احترام سکھاتا ہوں ۔
پھر کچھ لوگ ادب میں میرے مقام کی بات شروع کر دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں عرض ہے کہ آپ کی نظروں میں میرا کوئی مقام تو ضرور ہے ، ورنہ آپ کو اس کی فکر ہرگز نہ ہوتی ۔
اساطیری کہانیوں سے لے کر مجھ حقیر کی کہانیوں تک آپ کو ایک بھی ایسی کہانی نہ ملے گی جس میں جرائم نہ ہوں اور آج بھی آپ جسے بہت اونچے قسم کے ادب کا درجہ دیتے ہیں اور جس کا ترجمہ دنیا کی دوسری زبانوں میں بھی آئے دن ہوتا رہتا ہے ، کیا جرائم کے تذکروں سے پاک ہوتا ہے ؟ کیا اس کے ضرر رساں پہلوؤں پر ہمارے نقاد کی نظر نہیں پڑتی ؟ اگر نہیں تو کیوں ؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ کہانیوں میں بھی (جو دراصل ذہنی فرار کا ذریعہ ہوتی ہیں ) پولیس یا جاسوس کا وجود برداشت نہیں کر سکتے ۔ چلئے ، پولیس کو اس لئے برداشت کر لیں گے کہ وہ للکار کر سامنے آتی ہے لیکن جاسوس تو بے خبری میں پتا نہیں کب گردن دبوچ لے !
لہذا اگر مجھے ادب میں کوئی مقام پانے کی خواہش ہے تو جاسوس کو چھٹی دینی پڑے گی لیکن میں اس پر تیار نہیں ہوں کیونکہ مجھے ہر حال میں "شر" پر "خیر" کی فتح کا پرچم لہرانا ہے ۔ میں باطل کو حق کے سامنے سربلند دکھانا نہیں چاہتا ۔
میں معاشرے میں مایوسی نہیں پھیلانا چاہتا ۔ ایسی مایوسی ، جو غلط راہوں پر لے چلے ۔

2009/06/14

عمران سیریز

ناولوں کی ایک کثیر تعداد کو ، محبانِ ابن صفی نے اسکین کر کے پ-ڈ-ف فائلوں کی شکل میں مختلف سائیٹس پر اَپ لوڈ کر رکھا ہے۔ جتنے ناولوں کے ڈاؤن لوڈ روابط میرے علم میں ہیں، وہ یہاں فراہم کئے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی ناول ڈاؤن لوڈ کرنا ہو تو متعلقہ ناول کے نمبر شمار کو کلک کر لیا جائے۔
آپ کی نظر میں بھی کسی ناول کا کوئی ربط ہو تو براہ مہربانی مجھے ای-میل کیجئے گا تاکہ اسے بھی یہاں شامل کر لیا جا سکے، شکریہ۔

انگریزی عناوین اور تاریخ اشاعت کا ماخذ (بشکریہ) : یہاں

اعتذار :
چونکہ نستعلیق فونٹ ٹیبل (table) کی شکل کو بگاڑ دیتا ہے ، لہذا جدول میں ایشیا نسخ فونٹ استعمال کیا گیا ہے !

اَپ ڈیٹ : 6-جولائی-2009ء
کاپی رائیٹ سے متعلق ، اسرار پبلی کیشنز ، لاہور کے اعتراض پر تمام روابط ہٹا دئے گئے ہیں !!





عمران سیریز
نمبر شمارعنوان کتابBook Titleشائع شدہ
001خوفناک عمارت The Frightening Building10-1955
002چٹانوں ميں فائر Firing in the Rocks11-1955
003پراسرار چيخيں The Mysterious Cries12-1955
004بھيانک آدمی The Frightening Man01-1956
005جہنم کي رقاصہ The Dancer from Hell02-1956
006نيلے پرندے The Blue Birds03-1956
007سانپوں کے شکاری The Snake Hunters04-1956
008رات کا شہزادہ The Prince of Night05-1956
009دھويں کی تحرير The Scribbling in Smoke06-1956
010لڑکيوں کا جزيرہ The Island of Girls15-07-1956
011پتھر کا خون The Blood of Rocks08-1956
012لاشوں کا بازار The Corpse Market09-1956
013قبر اور خخبر The Grave and The Dagger10-1956
014آہنی دروازہ The Steel Door11-1956
015کالے چراغ The Dark Lamps27-12-1956
016خون کے پياسے The Blood Thirsty28-01-1957
017الفانسے Alphonse28-02-1957
018درندوں کی بستی The Town of Beasts27-03-1957
019گمشدہ شہزادی The Lost Princess17-05-1957
020حماقت کا جال The Trap of Folly15-06-1957
021شفق کے پجاری The Worshipers of Dusk20-07-1957
022قاصد کی تلاش The Hunt for the Messenger20-08-1957
023رائی کا پربت The Mountain of a Mole Hill18-09-1957
024پاگل کتے The Mad Dogs10-1957
025پياسا سمندر The Thirsty Ocean25-11-1957
026کالی تصوير The Black Painting16-12-1957
027سواليہ نشان The Question Mark29-01-1958
028خطرناک لاشيں The Dangerous Corpses03-1958
029گيند کی تباہکاری The Destruction Due to a Ball30-05-1958
030چار لکيريں The Four Lines07-1958
031چاليس ايک باون 40-1-5210-1958
032آتشدان کا بت The Statue on the Fireplace12-1958
033جڑوں کی تلاش The Quest for the Roots04-1958
034عمران کا اغوا Imran's Abduction01-1959
035جزيروں کی روح The Spirit of the Islands21-02-1959
036چيختی روحيں The Shouting Spirits24-04-1959
037خطرناک جواری The Dangerous Gambler24-06-1959
038ظلمات کا ديوتا The God of Darkness03-09-1959
039ہيروں کا فريب The Diamond Fraud04-11-1959
040دلچسپ حادثا The Interesting Accident05-01-1960
041بےآواز سيارہ The Silent Planetoid03-1960
042ڈيڑھ متوالے One and a Half Buddies21-10-1963
043بلی چيختی ہے The Cat Cries31-03-1964
044لوبولی لا Code Word: Loe-Boe Lee-Law06-12-1965
045سہرنگ شعلہ The Tri-colored Flame18-01-1966
046آتشی بادل The Fiery Cloud14-03-1966
047گيت اور خون The Song and The Blood09-08-1966
048دوسری آنکھ The Second Eye01-12-1966
049آنکھ شعلہ بنی The Eye Turns into a Flame23-01-1967
050شوگر بينک Sugar Bank01-03-1968
051تابوت ميں چيخ The Cry from the Casket1968
052فضائی ہنگامہ The Aerial Agitation19-04-1968
053تصوير کی اڑان The Flight of the Painting1968
054گيارہ نومبر The Eleventh of November16-01-1969
055مناروں والياں The Ladies of Minarets1969
056سبز لہو The Green Blood02-07-1969
057بحری يتيم خانہ The Marine Orphanage14-03-1970
058پاگلوں کی انجمن The Lunatics Association01-06-1970
059ہلاکو اينڈ کو Halaakoo & Co.17-10-1970
060پہاڑوں کے پيچھے Behind the Mountains18-03-1971
061بزدل سورما The Coward Knight21-10-1971
062دست قضا The Hand of Death01-01-1972
063ايش ٹرے ہائوز Ashtray House12-03-1972
064عقابوں کے حملے The Attacks of Eagles21-08-1972
065پھر وہی آواز ... Again, The Same Voice26-10-1972
066خونريز تصادم The Bloody Encounter12-12-1972
067تصوير کی موت Death of a Painting30-04-1973
068کنگ چانگ King Chang22-09-1973
069دھويں کا حصار The Circle of Smoke23-10-1973
070سمندر کا شگاف The Hole in the Sea01-12-1973
071زلزلے The Travelling Earth Quake01-01-1974
072بليک اينڈ وہائٹ Black & White25-02-1974
073ناديدہ ہمدرد The Unseen Compatriot06-04-1974
074ادھورا آدمی The Incomplete Man17-05-1974
075آپريشن ڈبل کراس Operation double-cross25-07-1974
076خيرانديش The Well Wisher23-08-1974
077پوائنٹ نمبر بارہ Point # 1219-09-1974
078ايڈلاوا Ed Lava1974
079بيمبو کيسل Bamboo Castle02-12-1974
080معصوم درندہ The Innocent Beast21-12-1974
081بیگم ایکسٹو Mrs. X-203-03-1975
082شہباز کا بسیرا The Dwelling of the Hawk16-04-1975
083ریشوں کی یلغار The Attacks of the Fibres20-05-1975
084خطرناک ڈھلوان The Dangerous Slope23-06-1975
085جنگل میں منگل Picnic in Jungle25-07-1975
086تین سنکی The Three Crazy Men10-09-1975
087آدھا تیتر Half Partridge17-10-1975
088آدھا بٹیر Half Quail22-11-1975
089علامہ دہشتناک The Fearsome Scholar18-02-1976
090فرشتے کا دشمن The Enemy of the Angel20-03-1976
091بیچارہ شہزور Poor Wrestler25-04-1976
092کالی کہکشاں The Dark Galaxy31-05-1976
093سہرنگی موت The Tri-colored Death21-06-1976
094متحرک دھاریاں The Moving Stripes23-07-1976
095جونک اور ناگن The Leech and the Snake06-09-1976
096لاش گاتی رہی ... And the Corpse kept Singing20-11-1976
097خوشبو کا حملہ The Attack of Fragrance09-12-1976
098بابا سنگ پرست The Old Dog-Worshiper22-01-1977
099مہکتے محافض The Fragrant Guards21-02-1977
100ہلاکت خیز The Deadly04-05-1977
101زیبرامين Zebra Man09-06-1977
102جنگل کی شہریت Citizenship of Jungle30-07-1977
103مونالیزا کی نواسی Mona Lisa's Grand Daughter19-10-1977
104خونی فنکار The Bloody Artiste17-12-1977
105موت کی آہٹ The Sound of Death13-07-1978
106دوسرا رخ The Other Side27-08-1978
107چٹانوں کا راز The Secret of the Rocks1978
108ٹھنڈا سورج The Cold Sun12-12-1978
109تلاش گمشدہ Looking for...24-01-1979
110آگ کا دائرہ The River of Fire17-03-1979
111لرزتی لکیریں The Shaking Lines23-05-1979
112پتھر کا آدمی The Stone Man25-09-1979
113دوسرا پتھر The Second Stone03-11-1979
114خطرناک انگلیاں The Dangerous Fingers09-12-1979
115رات کا بھکاری The Nocturnal Beggar05-06-1980
116آخری آدمی The Last Man11-10-1980
117ڈاکٹر دعاگو Dr. Du'A-goe02-1964
118جونک کی واپسی The Return of the Leech08-06-1962
119زہریلی تصویر The Poisonous Painting29-10-1962
120بیباکوں کی تلاش The Search of Straightforwards 28-05-1965

...
ڈاؤن لوڈ روابط ، بشکریہ : فراز - وَن اُردو

فریدی سیریز

ناولوں کی ایک کثیر تعداد کو ، محبانِ ابن صفی نے اسکین کر کے پ-ڈ-ف فائلوں کی شکل میں مختلف سائیٹس پر اَپ لوڈ کر رکھا ہے۔ جتنے ناولوں کے ڈاؤن لوڈ روابط میرے علم میں ہیں، وہ یہاں فراہم کئے جا رہے ہیں۔ کوئی بھی ناول ڈاؤن لوڈ کرنا ہو تو متعلقہ ناول کے نمبر شمار کو کلک کر لیا جائے۔
آپ کی نظر میں بھی کسی ناول کا کوئی ربط ہو تو براہ مہربانی مجھے ای-میل کیجئے گا تاکہ اسے بھی یہاں شامل کر لیا جا سکے، شکریہ۔

انگریزی عناوین اور تاریخ اشاعت کا ماخذ (بشکریہ) : یہاں

اعتذار :
چونکہ نستعلیق فونٹ ٹیبل (table) کی شکل کو بگاڑ دیتا ہے ، لہذا جدول میں ایشیا نسخ فونٹ استعمال کیا گیا ہے !

اَپ ڈیٹ : 6-جولائی-2009ء
کاپی رائیٹ سے متعلق ، اسرار پبلی کیشنز ، لاہور کے اعتراض پر تمام روابط ہٹا دئے گئے ہیں !!






فریدی سیریز
نمبر شمارعنوان کتابBook Titleشائع شدہ
001دلير مجرم The Brave Criminal03-1952
002خوفناک جنگل The Terrifying Jungle03-1952
003عورت فروش کا قاتل The Killer of Women-Trader04-1952
004تجوری کا راز The Secret of the Safe05-1952
005فريدی اور ليونارڈ Fareedi and Leonard06-1952
006پراسرار کنواں The Mysterious Well07-1952
007خطرناک بوڑھا The Dangerous Old Man08-1952
008مصنوعی ناک The Artificial Nose09-1952
009پراسرار اجنبی The Mysterious Stranger10-1952
010احمقوں کا چکر The Case of the Fools11-1952
011پہاڑوں کی ملکہ The Queen of the Mountains12-1952
012موت کی آندھی The Death Storm01-1953
013ہيرے کی کان The Diamond Mine02-1953
014تجوری کا گيت The Song of the Safe03-1953
015آتشی پرندہ The Fiery Bird04-1953
016خونی پتھر The Bloody Stone05-1953
017بھيانک جزيرہ The Terrifying Island06-1953
018عجيب آوازيں The Strange Sounds07-1953
019رقاصہ کا قتل The Murder of a Dancer08-1953
020نيلی روشنی The Royal Drum09-1953
021شاہی نقارہ The Blue Light10-1953
022خون کا دريا The River of Blood11-1953
023قاتل سنگريزے The Killer Pebbles12-1953
024پتھر کی چيخ The Cry of the Stone 01-1954
025خوفناک ہنگامہ The Terrifying Agitation 02-1954
026دوہرا قتل The Double Murder 03-1954
027چار شکاری The Four Hunters 04-1954
028بےگناہ مجرم The Innocent Criminal 05-1954
029لاشوں کا آبشار The Waterfall of Corpses 15-06-1954
030مونچھ مونڈنے والی The Moustache Shaver Lady 15-07-1954
031گيتوں کے دھماکے The Explosions of Songs 15-08-1954
032سياہ پوش لٹيرا The Black Clad Robber 15-09-1954
033برف کے بھوت The Snow Ghosts 15-10-1954
034پرہول سناٹا The Fearful Silence 15-11-1954
035چيختے دريچے The Crying Doors 15-12-1954
036خطرناک دشمن The Dangerous Enemy 15-01-1955
037جنگل کی آگ The Forest Fire 15-02-1955
038کچلی ہوئی لاش The Crushed Corpse 15-03-1955
039اندھيرے کا شہنشاہ The Empror of the Dark 15-04-1955
040پراسرار وصيت The Mysterious Will 15-05-1955
041موت کی چٹان The Rock of Death 15-06-1955
042نيلی لکير The Blue Line 15-07-1955
043تاريک سائے The Dark Shadows 15-08-1955
044سازش کا جال The Conspiracy Trap 15-09-1955
045خونی بگولے The Bloody Whirlwinds 15-10-1955
046لاشوں کا سوداگر The Corpse Merchant 15-11-1955
047ہولناک ويرانے The Frightening Wilderness15-12-1955
048ليونارڈ کی واپسی The Return of Leonard 15-01-1956
049بھيانک آدمی The Frightening Man 15-02-1956
050پاگل خانے کا قيدی The Prisoner of the Mental Asylum15-03-1956
051شعلوں کا ناچ The Dance of the Flames 15-04-1956
052گيارہواں زينہ The Eleventh Step 15-05-1956
053سرخ دائرہ The Red Circle 15-06-1956
054خونخوار لڑکياں The Blood-thirsty Girls 15-07-1956
055سائے کی لاش The Corpse of Shadow 15-08-1956
056پہلا شعلہ The First Flame 15-09-1956
057دوسرا شعلہ The Second Flame 15-10-1956
058تيسرا شعلہ The Third Flame 15-11-1956
059جہنم کا شعلہ The Flame from Hell 15-12-1956
060زہريلے تير The Poisonous Arrows 15-01-1957
061پانی کا دھواں The Water Smoke 15-02-1957
062لاش کا قہقہ The Laughter of the Corpse 15-03-1957
063ڈاکٹر ڈريڈ Dr. Dread 15-04-1957
064شيطان کی محبوبہ The Lover of the Devil 15-05-1957
065انوکھے رقاص The Novel Dancers 15-06-1957
066پراسرار موجد The Mysterious Inventor 15-07-1957
067طوفان کا اغوا The Abduction of Storm 15-08-1957
068رائفل کا نغمہ The Song of the Rifle 15-09-1957
069ٹھنڈی آگ The cold Fire 15-10-1957
070جاپان کا فتنہ The Trouble from Japan 15-11-1957
071دشمنوں کا شہر The city of Enemies 16-12-1957
072لاش کا بلاوا The Invitation of a Corpse 13-01-1958
073گارڈ کا اغوا The Abduction of Guard 15-02-1958
074شادی کا ہنگامہ The Hustle Bustle of the Wedding18-03-1958
075زمين کے بادل The Clouds of the Earth 16-04-1958
076وبائی ہيجان The Epidemic Agitation 25-06-1958
077اونچا شکار The Prized Victim 30-07-1958
078آوارہ شہزادہ The loafer Prince 30-08-1958
079چاندنی کا دھواں The Moonlight Smoke 12-10-1958
080سينکڑوں ہمشکل The Hundreds of Look-alikes 25-11-1958
081لڑاکوں کی بستی The Town of the Fighters 03-02-1959
082الٹی تصوير The Upside Down Painting 21-03-1959
083چمکيلا غبار The Glittering Dust 30-05-1959
084انوکھی رہزنی The Novel Robbery 26-07-1959
085دھواں اٹھ رہا تھا ... the Smoke was Rising 05-10-1959
086فرہاد 59 Farhaad '59 04-12-1959
087زہريلا آدمی The Poisonous Man 15-02-1960
088پرنس وہشی Prince Vehshi 18-06-1960
089بيچارہ / بيچاری [ Poor Woman ] 21-12-1963
090اشاروں کے شکار The Victims of the Hints 1964
091ستاروں کی موت The Death of Stars 04-10-1964
092ستاروں کی چيخيں The Cries of Stars 22-12-1964
093ساتواں جزيرہ The Seventh Island 20-01-1965
094شيطانی جھيل The Satanic Lake 16-03-1965
095سنہری چنگارياں The Golden Sparks 07-08-1965
096سہمی ہوئی لڑکی The Frightened Girl 23-04-1966
097قاتل کا ہاتھ The Hand of the Killer 20-06-1966
098رلانے والی The Lady who made them Weep 11-10-1966
099تصوير کا دشمن The Enemy of the Picture 02-04-1967
100ديو پيکر درندہ The Humougous Beast 01-08-1967
101ٹسڑل کی بيداری The Awakening of Tisdle 16-12-1967
102خوفناک منصوبہ The Terrifying Plan 13-07-1968
103تباہی کا خواب The Nightmare of Destruction 07-10-1968
104مہلک شناسائی The Fatal Acquaintence 27-11-1968
105دھواں ہوئی ديوار ... The Wall That Went Up In Smokes03-03-1969
106خونی ريشے The Killer Fibres 30-09-1969
107تيسری ناگن The Third Snake 10-11-1969
108ريگم بالا Raegam Bala 15-01-1970
109بھيڑئيے کی آواز The Howling of Wolf 28-07-1970
110اجنبی کا فرار The Escape of the Stranger 04-01-1971
111روشن ہيولی The Bright Aura 01-06-1971
112زرد فتنہ The Yellow Trouble 16-08-1971
113ريت کا ديوتا The Sand God 24-06-1972
114سانپوں کا مسيحا The Heeler of Snakes 19-02-1973
115ٹھنڈا جہنم The Cold Hell 29-06-1973
116عظيم حماقت The Great Folly 01-07-1974
117زہريلا سيارہ The Poisonous Planet 01-02-1975
118نيلم کی واپسی The Return of Neelum 17-01-1976
119موروثی ہوس The Inherited Lust 07-10-1976
120دہشت گر The Terrorist 03-09-1977
121شکاری پرچھائياں The Killer Shadows 25-01-1978
122پرچھائيوں کے حملے The Attack of Shadows 26-02-1978
123سائيوں کا ٹکراؤThe Showdown of Shadows 09-04-1978
124ہمزاد کا مسکن The Dwelling of the Other Self03-06-1978
125صحرائی ديوانہ - 1 The Dessert Lunatic-117-07-1979
126صحرائی ديوانہ - 2 The Dessert Lunatic-2 1979

...
ڈاؤن لوڈ روابط ، بشکریہ : فراز - وَن اُردو

کاپی رائیٹ تفصیلات

محترم ناظرین کرام !
اس بلاگ کا بیشتر مواد کاپی رائیٹ قانون کے تحت ہے۔
برائے مہربانی درج ذیل نکات کا خیال رکھئے گا ، جو کہ اسرار پبلی کیشنز کے ذمہ دار ڈاکٹر احمد صفی سے رائے و مشاورت کے بعد طے کئے گئے ہیں :

1۔ اِس بلاگ کو اسرار پبلی کیشنز کا اخلاقی اور تعمیری تعاون حاصل ہے جس کے لیے بلاگ خالق "اسرار پبلی کیشنز" کا شکرگزار ہے۔

2۔ یہ بلاگ ذاتی دلچسپی کے تحت مفاد عامہ کی خاطر ، اردو یونی کوڈ میں منظر عام پر لایا گیا ہے۔ اس بلاگ سے تجارتی استفادہ کا حق بلاگ خالق اور بلاگ کے ناظرین کو قطعاً حاصل نہیں ہے۔ تجارتی معاہدہ یا استفادہ کے لیے براہ راست "اسرار پبلی کیشنز" سے رابطہ کریں۔

3۔ ابن صفی کے تمام ناولوں اور دیگر تحاریر کے حقوق "اسرار پبلی کیشنز" کے نام محفوظ ہیں۔ کسی بھی ناول کی خریداری کے لیے براہ راست "اسرار پبلی کیشنز" سے رابطہ کریں جس کا پتا نیچے دیا جا رہا ہے۔

4۔ اسرار پبلی کیشنز کی جانب سے ابن صفی کے کسی بھی ناول کی ای-بک (pdf فائل) فی الحال دستیاب نہیں ہو سکے گی ، صرف پرنٹ ایڈیشن ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ البتہ جلد ہی ایسے اقدامات عمل میں لائے جا رہے ہیں کہ جس کے ذریعے ابن صفی کے ناول بآسانی آن لائن خریدے جا سکیں گے۔

5۔ ابن صفی کی آفیشل ویب سائیٹ کا ربط یہ ہے :
http://www.ibnesafi.info/
اور اس آفیشل ویب سائیٹ کو ابن صفی مرحوم کے ارکان خاندان کا مکمل قانونی تعاون حاصل ہے۔

6۔ ابن صفی سے متعلق کسی بھی قسم کی معلومات کے حصول کے لیے براہ مہربانی درج ذیل پتے سے رجوع فرمائیں ۔۔۔ بحوالہ : ربط
Asrar Publications
Al-Karim Market
Main Kabir Street
Urdu Bazar
Lahore
Pakistan

Phone: +92 (0) 42 - 732 1970, +92 (0) 42 - 735 7022


*****

پھر وہی آواز ۔۔۔

ابن صفی (بی۔اے)

ابن صفی ۔۔۔ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو آبِ حیات نہ پی کر بھی امر ہو جاتے ہیں ‫!
ابن صفی ، ایشیا کے سب سے بڑے مصنف ، مقبول ترین ناول نگار اور اردو کے جاسوسی ادب کو برصغیر میں روشناس کرانے والے قلمکار کا اسم گرامی ہے ۔
اسرار احمد صاحب ناروی (اسرار ناروی) نے ابن صفی بن کرجاسوسی ادب میں جو نام و مقام پیدا کیا اور اُن کے ادب کو جو قبول عام حاصل ہوا ، اس کی مثال اُردو ادب میں بہت ہی کم ملتی ہے ۔

قصبہ نارہ ، ضلع الہ آباد ، اترپردیش (انڈیا ) میں اپریل 1928ء میں آنکھ کھولنے والے ابن صفی نے جنوری 1952ء سے جاسوسی ناول لکھنا شروع کیا اور جولائی 1980ء ، کراچی میں اپنے انتقال تک قریباً ڈھائی سو (250) جاسوسی ناول انہوں نے تصنیف کئے ۔

ابن صفی ہی اُس ادبی شخصیت کا نام ہے ، جس نے تھکے ہوئے ذہنوں کے لئے صحت مند تفریح مہیا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے لوگوں میں کچھ نہ کچھ پڑھتے رہنے کی عادت ڈلوائی ہے ۔ اس کے علاوہ ، برصغیر میں ریڈنگ لائبریریوں ‫(reading libraries) کے رواج کو ابن صفی ہی کا کارنامہ کہا جاتا ہے ۔ آج کا قاری بھی ابن صفی کا ناول ایک ہی نشست میں ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہ کمال کسی اور مصنف کو حاصل نہیں ہے !

آج ابن صفی ہر چند کے ہمارے درمیان حیات نہیں ۔۔۔ لیکن ، اُن کی تحریریں ، اُن کا اسلوب اور اُن کا اندازِ بیان آج بھی اور آنے والے کل بھی ہزاروں لاکھوں پڑھنے والوں کو اپنی گرفت میں لئے رہے گا ‫!!


مدتوں ذہن میں گونجوں گا سوالوں کی طرح
تجھ کو یاد آؤں گا گزرے ہوئے سالوں کی طرح
ڈوب جائے گا جو کسی روز خورشیدِ اَنا
مجھ کو دہراؤگے محفل میں مثالوں کی طرح


ابن صفی کی آفیشل ویب سائیٹ - یہاں کلک کیجئے
Click Here to visit Ibn-e-Safi's official Website